وہ حال ہے ہر ایک بشر کانپ رہا ہے
وہ حال ہے ہر ایک بشر کانپ رہا ہے بیٹا بھی جھکائے ہوئے سر کانپ رہا ہے شوہر بھی ہے نوکر کی طرح کونے میں دبکا بیگم نے قدم رکھا تو گھر کانپ رہا ہے
وہ حال ہے ہر ایک بشر کانپ رہا ہے بیٹا بھی جھکائے ہوئے سر کانپ رہا ہے شوہر بھی ہے نوکر کی طرح کونے میں دبکا بیگم نے قدم رکھا تو گھر کانپ رہا ہے
عشق میں صبر آ گیا آثمؔ اور کیا ہوگا اس کمال کے بعد عشق پھولے پھلے گا اب شاید ان کے ابا کے انتقال کے بعد
زبان مادری پوچھی جو اک لڑکے سے کالج میں تو وہ بولا نہیں مجھ کو پتا کیا ہے زباں میری اگر سچ جاننا چاہیں تو سنئے ماسٹر صاحب ''زبان مادری کچھ بھی نہیں گونگی ہے ماں میری''
ہم نے چپ رہ کے جو ایک ساتھ بتایا ہوا ہے وہ زمانا مری آواز میں آیا ہوا ہے غیر مانوس سی خوشبو سے لگا ہے مجھ کو تو نے یہ ہاتھ کہیں اور ملایا ہوا ہے میں اسے دیکھ کے لوٹا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں شہر کا شہر مجھے دیکھنے آیا ہوا ہے
دہن کھولیں گی اپنی سیپیاں آہستہ آہستہ گزر دریا سے اے ابر رواں آہستہ آہستہ لہو تو عشق کے آغاز ہی میں جلنے لگتا ہے مگر ہونٹوں تک آتا ہے دھواں آہستہ آہستہ پلٹنا بھی اگر چاہیں پلٹ کر جا نہیں سکتے کہاں سے چل کے ہم آئے کہاں آہستہ آہستہ کہیں لالی بھری تھالی نہ گر جائے سمندر میں چلا ...
ہنسنے نہیں دیتا کبھی رونے نہیں دیتا یہ دل تو کوئی کام بھی ہونے نہیں دیتا تم مانگ رہے ہو مرے دل سے مری خواہش بچہ تو کبھی اپنے کھلونے نہیں دیتا میں آپ اٹھاتا ہوں شب و روز کی ذلت یہ بوجھ کسی اور کو ڈھونے نہیں دیتا وہ کون ہے اس سے تو میں واقف بھی نہیں ہوں جو مجھ کو کسی اور کا ہونے ...
مکاں بھر ہم کو ویرانی بہت ہے مگر یہ دل کہ سیلانی بہت ہے ہمارے پاؤں الٹے ہیں سو ہم کو پلٹ جانے میں آسانی بہت ہے ستارے چور آنکھوں سے نہ دیکھیں زمیں پر میری نگرانی بہت ہے ابھی سوکھی نہیں مٹی کی آنکھیں ابھی دریاؤں میں پانی بہت ہے عجب سی شرط ہے یہ زندگی بھی جو منوائی ہے کم مانی بہت ...
ہوائے تیز ترا ایک کام آخری ہے کہ نخل خشک پہ ماہ تمام آخری ہے میں جس سکون سے بیٹھا ہوں اس کنارے پر سکوں سے لگتا ہے میرا قیام آخری ہے پھر اس کے بعد یہ بازار دل نہیں لگنا خرید لیجئے صاحب غلام آخری ہے گزر چلا ہوں کسی کو یقیں دلاتا ہوا کہ لوح دل پہ رقم ہے جو نام آخری ہے تبھی تو پیڑ کی ...
بچپن کا دور عہد جوانی میں کھو گیا یہ امر واقعہ بھی کہانی میں کھو گیا لہروں میں کوئی نقشہ کہاں پائیدار ہے سورج کے بعد چاند بھی پانی میں کھو گیا آنکھوں تک آ سکی نہ کبھی آنسوؤں کی لہر یہ قافلہ بھی نقل مکانی میں کھو گیا اب بستیاں ہیں کس کے تعاقب میں رات دن دریا تو آپ اپنی روانی میں ...
کوئی ملتا نہیں یہ بوجھ اٹھانے کے لیے شام بے چین ہے سورج کو گرانے کے لیے اپنے ہم زاد درختوں میں کھڑا سوچتا ہوں میں تو آیا تھا انہیں آگ لگانے کے لیے میں نے تو جسم کی دیوار ہی ڈھائی ہے فقط قبر تک کھودتے ہیں لوگ خزانے کے لیے دو پلک بیچ کبھی راہ نہ پائی ورنہ میں نے کوشش تو بہت کی نظر ...