اندیشۂ وصال کی ایک نظم
شفق کے پھول تھالی میں سجائے سانولی آئی چراغوں سے لویں کھینچیں دریچوں میں نمی آئی میں سمجھا اس سے ملنے کی گھڑی آئی ہوا جاروب کش تھی آسماں آثار تنکوں کی جسے اپنی سہولت کے لیے دنیا... یہ تن آسان دنیا... اک مروت میں ہجوم خلق کہتی ہے مری آنکھیں تہی گلدان کی صورت منڈیروں پر گلی سے اٹھنے ...