شاعری

اندیشۂ وصال کی ایک نظم

شفق کے پھول تھالی میں سجائے سانولی آئی چراغوں سے لویں کھینچیں دریچوں میں نمی آئی میں سمجھا اس سے ملنے کی گھڑی آئی ہوا جاروب کش تھی آسماں آثار تنکوں کی جسے اپنی سہولت کے لیے دنیا... یہ تن آسان دنیا... اک مروت میں ہجوم خلق کہتی ہے مری آنکھیں تہی گلدان کی صورت منڈیروں پر گلی سے اٹھنے ...

مزید پڑھیے

پاگل

وہ آیا شہر کی طرف اک اس کی چاپ کی کھنک قیام روز عشق کی پکار تھی کہ برگ و بار خاک کا فشار تھی وہ آیا شہر کی طرف لپک کے اینٹ کی طرف وہ اس طرح بڑھا کہ جیسے نان خشک پر کوئی سگ گرسنہ گر پڑے وہ گالیوں بھری زباں گلی گلی چھلک پڑی ہر ایک جیب اس کی انگلیوں سے تار تار تھی کہ اس کی تھوتھنی سے ...

مزید پڑھیے

ابھی اس کی ضرورت تھی

صف ماتم بچھی ہے سخن کا آخری در بند ہونے کی خبر نے کھڑکیوں کے پار بیٹھے غمگساروں کو یہ کیسی چپ لگا دی ہے یہ کس کی ناگہانی موت پر سرگوشیوں کی آگ روشن ہے کسی کے کنج لب سے کوئی تارا میرے دل پر آن پڑتا ہے برا ہو موت کا جس نے مرے فریاد رس کی جان لے لی ہے ابھی اس کی ضرورت تھی میں اس دنیا کے ...

مزید پڑھیے

مجھے رستہ نہیں ملتا

مجھے رستہ نہیں ملتا میں جوہڑ میں کھلے پھولوں کے حق میں بول کر دلدل کی تہہ میں دھنس گیا ہوں میں نہیں کہتا کہ یہ کس آسماں کا کون سا سیارۂ بد ہے مگر یہ تہہ زمیں کی آخری چھت ہے یہاں دن ہی نکلتا ہے نہ شام عمر ڈھلتی ہے پرندہ بھی نہیں کوئی کہ جس کے پاؤں سے کوئی نوشتہ باندھ کر بھیجوں تو ...

مزید پڑھیے
صفحہ 5813 سے 5858