اے خرابات کے خداوندو
اے خرابات کے خداوندو دست الطاف کو کھلا رکھو جو محبت سے چل کے آ جائے اس کی امید کو ہرا رکھو
اے خرابات کے خداوندو دست الطاف کو کھلا رکھو جو محبت سے چل کے آ جائے اس کی امید کو ہرا رکھو
زیست دامن چھڑائے جاتی ہے موت آنکھیں چرائے جاتی ہے تھک کے بیٹھا ہوں اک دوراہے پر دوپہر سر پہ آئے جاتی ہے
عروس صبح نے لی ہے مچل کے انگڑائی صبا کی نرمئ رفتار ہے سرور انگیز یہ وقت ہے کہ عبادت کا اہتمام کریں خلوص دل سے اچھال ایک ساغر لبریز
اور ارمان اک نکل جاتا اک کلی ہنس کے اور کھل جاتی کاش اس تنگ دل زمانے سے اک حسیں شام اور مل جاتی
ہنس ہنس کے جام جام کو چھلکا کے پی گیا وہ خود پلا رہے تھے میں لہرا کے پی گیا توبہ کے ٹوٹنے کا بھی کچھ کچھ ملال تھا تھم تھم کے سوچ سوچ کے شرما کے پی گیا ساغر بدست بیٹھی رہی میری آرزو ساقی شفق سے جام کو ٹکرا کے پی گیا وہ دشمنوں کے طنز کو ٹھکرا کے پی گئے میں دوستوں کے غیظ کو بھڑکا کے ...
زلف برہم سنبھال کر چلئے راستہ دیکھ بھال کر چلئے موسم گل ہے اپنی بانہوں کو میری بانہوں میں ڈال کر چلئے مے کدے میں نہ بیٹھیے تاہم کچھ طبیعت بحال کر چلئے کچھ نہ دیں گے تو کیا زیاں ہوگا حرج کیا ہے سوال کر چلئے ہے اگر قتل عام کی نیت جسم کی چھب نکال کر چلئے کسی نازک بدن سے ٹکرا ...
ہلکا ہلکا سرور ہے ساقی بات کوئی ضرور ہے ساقی تیری آنکھوں کو کر دیا سجدہ میرا پہلا قصور ہے ساقی تیرے رخ پر ہے یہ پریشانی اک اندھیرے میں نور ہے ساقی تیری آنکھیں کسی کو کیا دیں گی اپنا اپنا سرور ہے ساقی پینے والوں کو بھی نہیں معلوم مے کدہ کتنی دور ہے ساقی
دیکھ کر دلکشی زمانے کی آرزو ہے فریب کھانے کی اے غم زندگی نہ ہو ناراض مجھ کو عادت ہے مسکرانے کی ظلمتوں سے نہ ڈر کہ رستے میں روشنی ہے شراب خانے کی آ ترے گیسوؤں کو پیار کروں رات ہے مشعلیں جلانے کی کس نے ساغر عدمؔ بلند کیا تھم گئیں گردشیں زمانے کی
دن گزر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں زخم بھر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں آپ کا شہر اگر بار سمجھتا ہے ہمیں کوچ کر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں آپ کے جور کا جب ذکر چھڑا محشر میں ہم مکر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں رو کے جینے میں بھلا کون سی شیرینی ہے ہنس کے مر جائیں گے سرکار کوئی ...
گوریوں کالیوں نے مار دیا جامنوں والیوں نے مار دیا انگ ہیں یا رکابیاں دھن کی موہنی تھالیوں نے مار دیا گنگناتے حسین کانوں کی ڈولتی بالیوں نے مار دیا اودے اودے سحاب سے آنچل رنگ کی جالیوں نے مار دیا زلف کی نکہتوں نے جاں لے لی ہونٹ کی لالیوں نے مار دیا اف وہ پیاسے معززین ...