زندگی اک فریب پیہم ہے
زندگی اک فریب پیہم ہے مسکرا کر فریب کھاتا جا روشنی قرض لے کے ساقی سے سرد راتوں کو جگمگاتا جا
زندگی اک فریب پیہم ہے مسکرا کر فریب کھاتا جا روشنی قرض لے کے ساقی سے سرد راتوں کو جگمگاتا جا
اے گداگر خدا کا نام نہ لے اس سے انساں کا دل نہیں ہلتا یہ ہے وہ نام جس کی برکت سے اکثر اوقات کچھ نہیں ملتا
مفلسوں کو امیر کہتے ہیں آب سادہ کو شیر کہتے ہیں اے خدا! تیرے باخرد بندے بزدلی کو ضمیر کہتے ہیں
ظلمتوں کو شراب خانے سے دھن کی خیرات ہوتی جاتی ہے ساغروں کے بلند ہونے سے چاندنی رات ہوتی جاتی ہے
جا رہا تھا حرم کو میں لیکن راستے میں بہ خوبیٔ تقدیر اک مقام ایسا آ گیا جس نے ڈال دی میرے پاؤں میں زنجیر
زندگی کی دراز پلکوں پر راستے کا غبار چھایا ہے آب کوثر سے آنکھ کو دھو لے میکدہ پھر قریب آیا ہے
شام ہے اور پار ندی کے ایک ننھا سا بے قرار دیا یوں اندھیرے میں ٹمٹماتا ہے جیسے کشتی کے ڈوبنے کی صدا
ذوق پرواز اگر رہے غالب حلقۂ دام ٹوٹ جاتا ہے زندگی کی گرفت میں آ کر موت کا جام ٹوٹ جاتا ہے
تیرگی کے گھنے حجابوں میں دور کے چاند جھلملاتے ہیں زندگی کی اداس راتوں میں بے وفا دوست یاد آتے ہیں
اے مرا جام توڑنے والے میں تجھے بد دعا نہیں دیتا میں بھی ہوں ایک سنگ دل تاجر جو ہنر کا صلہ نہیں دیتا