مایوس ہو گئی ہے دعا بھی جبین بھی
مایوس ہو گئی ہے دعا بھی جبین بھی اٹھنے لگا ہے دل سے خدا کا یقین بھی تسکیں کی ایک سانس ہمیں بخش دیجئے یہ آسماں بھی آپ کا اور یہ زمین بھی
مایوس ہو گئی ہے دعا بھی جبین بھی اٹھنے لگا ہے دل سے خدا کا یقین بھی تسکیں کی ایک سانس ہمیں بخش دیجئے یہ آسماں بھی آپ کا اور یہ زمین بھی
یہ وہ فضا ہے جہاں فرق صبح و شام نہیں کہ گردشوں میں یہاں زندگی کا جام نہیں دیار پاک میں مت پڑھ کلام روح افزا کہ مقبروں میں خطیبوں کا کوئی کام نہیں
زندگی ہے کہ اک حسین سزا زیست اپنی ہے غم پرائے ہیں ہم بھی کن مفلسوں کی دنیا میں قرض کی سانس لینے آئے ہیں
دفن ہیں ساغروں میں ہنگامے کتنی اجڑی ہوئی بہاروں کے نام کندہ ہیں آبگینوں پر کتنے ڈوبے ہوئے ستاروں کے
گلستانوں میں گھوم لیتا ہوں بادہ خانوں میں جھوم لیتا ہوں زندگی جس جگہ بھی مل جائے اس کے قدموں کو چوم لیتا ہوں
سو رہی ہے گلوں کے بستر پر ایک تصویر رنگ و نکہت و ناز جس کے ماتھے کی نرم لہروں پر چاندنی رات پڑھ رہی ہے نماز
وصل کی شب ہے اور سینے میں ایک مدہوش آگ کا رس ہے آج سارے چراغ گل کر دو آج اندھیرا بڑا مقدس ہے
نہ خدا ہے نہ ناخدا ساتھی ناؤ کو آپ ہی چلانا ہے یا بغاوت سے پار اترنا ہے یا رعونت سے ڈوب جانا ہے
ساحل پہ اک تھکے ہوئے جوگی کی بنسری تلقین کر رہی ہے کنارہ ہے زندگی طوفان میں سفینۂ ہستی کو چھوڑ کر ملاح گا رہا ہے کہ دریا ہے زندگی
ناخدا کس لئے پریشاں ہے کشمکش عین کامیابی ہے گر کنارہ نہیں مقدر میں قصر دریا میں کیا خرابی ہے