اب مری حالت غم ناک پہ کڑھنا کیسا
اب مری حالت غم ناک پہ کڑھنا کیسا کیا ہوا مجھ کو اگر آپ نے ناشاد کیا حادثہ ہے مگر ایسا تو المناک نہیں یعنی اک دوست نے اک دوست کو برباد کیا
اب مری حالت غم ناک پہ کڑھنا کیسا کیا ہوا مجھ کو اگر آپ نے ناشاد کیا حادثہ ہے مگر ایسا تو المناک نہیں یعنی اک دوست نے اک دوست کو برباد کیا
خرابات منزل گہ کہکشاں ہے وگرنہ ہر اک چیز ظلمت نشاں ہے لب ماہ و انجم پہ ساقی ازل سے ترا ذکر ہے یا مری داستاں ہے
دل کی ہستی بکھر گئی ہوتی روح کے زخم بھر گئے ہوتے زندگی آپ کی نوازش ہے ورنہ ہم لوگ مر گئے ہوتے
چلتے چلتے تمام رستوں سے مست و مسرور آ گئے ہیں ہم اب جبیں سے نقاب الٹ دیجے شہر سے دور آ گئے ہیں ہم
صورت کے آئنے میں دل پائمال دیکھ الفت کی واردات کا حسن مثال دیکھ جب اس کا نام آئے کسی کی زبان پر اس وقت غور سے مرے چہرے کا حال دیکھ
اب بھی سازوں کے تار ہلتے ہیں اب بھی شاخوں پہ پھول کھلتے ہیں تم نے ہم کو بھلا دیا تو کیا اب بھی راہوں میں چاند ملتے ہیں
بحر آلام بے کنارہ ہے زیست کی ناؤ بے سہارا ہے رات اندھیری ہے اور متاع امید ایک ٹوٹا ہوا ستارا ہے
جن کو ملاح چھوڑ جاتے ہیں ان سفینوں کو کون کھیتا ہے پوچھتی ہے یہ قسمت مزدور یا خدا رزق کون دیتا ہے
اک شکستہ سے مقبرے کے قریب اک حسیں جوئبار بہتی ہے موت کتنی مداخلت بھی کرے زندگی بے قرار رہتی ہے
ایک ریزہ ترے تبسم کا اڑ گیا تھا شراب خانے سے حوض کوثر بنا دیا جس کو واعظوں نے کسی بہانے سے