شاعری

اس کی جھیل آنکھوں سے دور تک میں دیکھوں گی

اس کی جھیل آنکھوں سے دور تک میں دیکھوں گی بے قرار تنہائی اشک بار خاموشی آج تیرے پہلو میں میں نے پھر سے دیکھی ہے اک جوان رعنائی دل فگار خاموشی اپنے قیمتی لمحے مجھ پہ وارنے والے تری قربتوں میں تھی بے شمار خاموشی ہم سفر نے رکھا تھا بھرم اپنے ہونے کا دل فریب سرگوشی بے قرار ...

مزید پڑھیے

پھر کسی حادثے کا در کھولے

پھر کسی حادثے کا در کھولے پہلے پرواز کو وہ پر کھولے جیسے جنگل میں رات اتری ہو یوں اداسی ملی ہے سر کھولے پہلے تقدیر سے نمٹ آئے پھر وہ اپنے سبھی ہنر کھولے منزلوں نے وقار بخشا ہے راستے چل پڑے سفر کھولے جو سمجھتا ہے زندگی کے رموز موت کا در وہ بے خطر کھولے ہے کنولؔ خوف رائیگانی ...

مزید پڑھیے

کاغذ قلم دوات کے اندر رک جاتا ہے

کاغذ قلم دوات کے اندر رک جاتا ہے جو لمحہ اس ذات کے اندر رک جاتا ہے سورج دن بھر زہر اگلتا رہتا ہے چاند کا زعم بھی رات کے اندر رک جاتا ہے پہلے سانس جما دیتا ہے ہونٹوں پر پھر وہ اپنی گھات کے اندر رک جاتا ہے نکل نہیں سکتا دھرتی کا بنجر پن جو قطرہ برسات کے اندر رک جاتا ہے حرف کا دیپ ...

مزید پڑھیے

انتہا ہونے سے پہلے سوچ لے

انتہا ہونے سے پہلے سوچ لے بے وفا ہونے سے پہلے سوچ لے بندگی مجھ کو تو راس آ جائے گی تو خدا ہونے سے پہلے سوچ لے کاسۂ ہمت نہ خالی ہو کبھی تو گدا ہونے سے پہلے سوچ لے یہ محبت عمر بھر کا روگ ہے مبتلا ہونے سے پہلے سوچ لے بچ رہے کچھ تیرے میرے درمیاں فاصلہ ہونے سے پہلے سوچ لے زندگی اک ...

مزید پڑھیے

ایسی کہاں اتری ہے کوئی شام مری جان

ایسی کہاں اتری ہے کوئی شام مری جان اشجار پہ لکھا ہے ترا نام مری جان کٹتے ہیں کہاں ایک سے دن رات یہ موسم ہے زیست بھی اک حسرت ناکام مری جان کھیتوں میں کہاں اگتے ہیں لفظوں کے مراسم حرفوں کی تجارت میں گئے نام مری جان مجھ کو نہیں پہنچی تری خوشبو تو کروں کیا بے شک تو رہے لالہ و گلفام ...

مزید پڑھیے

کبھی پکار کے دیکھا کبھی بلائے تو

کبھی پکار کے دیکھا کبھی بلائے تو حدود ذات سے آگے نکل کے آئے تو پلا رہا ہے نگاہوں کو تیرگی کا لہو فصیل جاں پہ وہ کوئی دیا جلائے تو سجائے رکھوں گی اپنے گمان کی دنیا مرے یقین کی منزل پہ کوئی آئے تو یہ آنکھیں نیند کو ترسی ہوئی ہیں مدت سے وہ خواب زار شبستاں کوئی دکھائے تو غرور عشق ...

مزید پڑھیے

دستک

درد کے گہرے سناٹے میں قریۂ جاں کے بند کواڑ پہ دستک دے کر ہلکی سی سرگوشی کر کے کوئی تو پوچھے اب تک زندہ رہنے والو ہجر کے گہرے سناٹوں میں اپنے آپ سے بچھڑے لوگو کیسے زندہ رہ لیتے ہو

مزید پڑھیے

تمہاری یاد کا سایا نہ ہوگا

تمہاری یاد کا سایا نہ ہوگا کوئی بہتا ہوا دریا نہ ہوگا یہ منظر بھی نظر آئے گا اک دن بدن ہوگا کوئی چہرا نہ ہوگا زمانے ہوں گے میری دسترس میں تمہارے قرب کا لمحہ نہ ہوگا سمندر کی طرح وہ شانت لیکن لہو اس آنکھ سے ٹپکا نہ ہوگا فقط سناٹے میں چیخا کریں گے مکاں ہوں گے کوئی بستا نہ ہوگا

مزید پڑھیے

جو بات اچھی نہیں لگتی اصولاً

جو بات اچھی نہیں لگتی اصولاً اسے ہم چھوڑ دیتے ہیں یقیناً نکالو دودھ کی نہریں یقیناً مگر ملتی ہے شیریں اتفاقاً زباں لکنت زدہ بد نیتوں کی ہم اپنی بات کہہ دیتے ہیں فوراً دلوں کے بیچ اک دیوار سی ہے ملیں بھی ہم تو اب ملتے ہیں رسماً بدن اس کا ہے خوشبو چاند نغمہ تبھی تو ہم جھکے ہیں ...

مزید پڑھیے

حسن غزل بد حالی میں

حسن غزل بد حالی میں سارے دیواں نالی میں کون سنے گا میری بات سب تو مگن ہیں تالی میں ادنیٰ اعلیٰ سب خوش ہیں گن ہیں جناب عالی میں پھول کھلے ہیں ہونٹوں پر خوشبو جسم کی ڈالی میں لمبی زلفیں سانولا جسم حسن تو ہے بنگالی میں غزلیں ہوتی ہیں عاصمؔ میں جب ڈوبوں پیالی میں

مزید پڑھیے
صفحہ 5799 سے 5858