شاعری

گزر گیا وہ زمانہ وہ زخم بھر بھی گئے

گزر گیا وہ زمانہ وہ زخم بھر بھی گئے سفر تمام ہوا اور ہم سفر بھی گئے اسی نظر کے لئے بے قرار رہتے تھے اسی نگاہ کی بے تابیوں سے ڈر بھی گئے ہماری راہ میں سایہ کہیں نہیں تھا مگر کسی شجر نے پکارا تو ہم ٹھہر بھی گئے یہ سیل اشک ہے برباد کر کے چھوڑے گا یہ گھر نہ پاؤ گے دریا اگر اتر بھی ...

مزید پڑھیے

اہل جنوں تھے فصل بہاراں کے سر گئے

اہل جنوں تھے فصل بہاراں کے سر گئے ہم لوگ خواہشوں کی حرارت سے مر گئے ہجر و وصال ایک ہی لمحے کی بات تھی وہ پل گزر گیا تو زمانے گزر گئے اے تیرگئ شہر تمنا بتا بھی دے وہ چاند کیا ہوئے وہ ستارے کدھر گئے وحشت کے اس نگر میں وہ قوس قزح سے لوگ جانے کہاں سے آئے تھے جانے کدھر گئے خوشبو اسیر ...

مزید پڑھیے

میں اس سے دور رہا اس کی دسترس میں رہا

میں اس سے دور رہا اس کی دسترس میں رہا وہ ایک شعلے کی صورت مرے نفس میں رہا نظر اسیر اسی چشم مے فشاں کی رہی مرا بدن بھی مری روح کے قفس میں رہا چمن سے ٹوٹ گیا برگ زرد کا رشتہ نہ آب و گل میں سمایا نہ خار و خس میں رہا تمام عمر کی بے تابیوں کا حاصل تھا وہ ایک لمحہ جو صدیوں کے پیش و پس میں ...

مزید پڑھیے

ستارے چاہتے ہیں ماہتاب مانگتے ہیں

ستارے چاہتے ہیں ماہتاب مانگتے ہیں مرے دریچے نئی آب و تاب مانگتے ہیں وہ خوش خرام جب اس راہ سے گزرتا ہے تو سنگ و خشت بھی اذن خطاب مانگتے ہیں کوئی ہوا سے یہ کہہ دے ذرا ٹھہر جائے کہ رقص کرنے کی مہلت حباب مانگتے ہیں عجیب ہے یہ تماشا کہ میرے عہد کے لوگ سوال کرنے سے پہلے جواب مانگتے ...

مزید پڑھیے

دھواں سا پھیل گیا دل میں شام ڈھلتے ہی

دھواں سا پھیل گیا دل میں شام ڈھلتے ہی بدل گئے مرے موسم ترے بدلتے ہی سمٹتے پھیلتے سائے کلام کرنے لگے لہو میں خوف کا پہلا چراغ جلتے ہی کوئی ملول سی خوشبو فضا میں تیر گئی کسی خیال کے حرف و صدا میں ڈھلتے ہی وہ دوست تھا کہ عدو میں نے صرف یہ جانا کہ وہ زمین پہ آیا مرے سنبھلتے ہی بدن ...

مزید پڑھیے

ہم ترے حسن جہاں تاب سے ڈر جاتے ہیں

ہم ترے حسن جہاں تاب سے ڈر جاتے ہیں ایسے مفلس ہیں کہ اسباب سے ڈر جاتے ہیں خوف ایسا ہے کہ دنیا کے ستائے ہوئے لوگ کبھی منبر کبھی محراب سے ڈر جاتے ہیں رات کے پچھلے پہر نیند میں چلتے ہوئے لوگ خون ہوتے ہوئے مہتاب سے ڈر جاتے ہیں شاد رہتے ہیں اسی جامۂ عریانی میں ہاں مگر اطلس و کمخواب سے ...

مزید پڑھیے

جب کوئی تیر حوادث کی کماں سے آیا

جب کوئی تیر حوادث کی کماں سے آیا نغمہ اک اور مرے مطرب جاں سے آیا ایک نظارے نے میرے لیے آنکھیں بھیجیں دل کسی کارگہہ شیشہ گراں سے آیا جب بھی اس دل نے ترے قرب کی دولت چاہی ایک سایہ سا نکل کر رگ جاں سے آیا میں نہ ڈرتا تھا عناصر کی ستم کوشی سے خوف آیا تو بس اک عمر رواں سے آیا کیا کروں ...

مزید پڑھیے

جس کو ہم سمجھتے تھے عمر بھر کا رشتہ ہے

جس کو ہم سمجھتے تھے عمر بھر کا رشتہ ہے اب وہ رابطہ جیسے رہ گزر کا رشتہ ہے صبح تک یہ موجیں بھی تھک کے سو ہی جائیں گی چاند کا سمندر ہے رات بھر کا رشتہ ہے یہ جو اتنے سارے دل ساتھ ہی دھڑکتے ہیں کچھ قلم کا ناطہ ہے کچھ ہنر کا رشتہ ہے تیز ہیں تو کیا غم ہے تند ہیں تو شکوہ کیا ان ہواؤں سے ...

مزید پڑھیے

تھم کے برسو نا یہاں کچے مکانوں نے ابھی (ردیف .. ے)

تھم کے برسو نا یہاں کچے مکانوں نے ابھی ساز ٹپ ٹپ کے نہ گانے کی قسم کھائی ہے تو بھی عاشق ہے سمجھتا ہوں میں آنسو تیرے شوخ چنچل سی ہوا کھینچ تمہیں لائی ہے تم سمجھتے ہو زلیخا کی محبت کا جنوں کیسے خالق کو وہ عاشق کی ادا بھائی ہے تم کو معلوم ہے کیوں مصر کے بازاروں میں سیل یہ حسن کی خود ...

مزید پڑھیے

انتہا ہونے سے پہلے سوچ لے

انتہا ہونے سے پہلے سوچ لے بے وفا ہونے سے پہلے سوچ لے بندگی مجھ کو تو راس آ جائے گی تو خدا ہونے سے پہلے سوچ لے کاسۂ ہمت نہ خالی ہو کبھی تو گدا ہونے سے پہلے سوچ لے یہ محبت عمر بھر کا روگ ہے مبتلا ہونے سے پہلے سوچ لے بچ رہے کچھ تیرے میرے درمیاں فاصلہ ہونے سے پہلے سوچ لے زندگی اک ...

مزید پڑھیے
صفحہ 5798 سے 5858