گزر گیا وہ زمانہ وہ زخم بھر بھی گئے
گزر گیا وہ زمانہ وہ زخم بھر بھی گئے سفر تمام ہوا اور ہم سفر بھی گئے اسی نظر کے لئے بے قرار رہتے تھے اسی نگاہ کی بے تابیوں سے ڈر بھی گئے ہماری راہ میں سایہ کہیں نہیں تھا مگر کسی شجر نے پکارا تو ہم ٹھہر بھی گئے یہ سیل اشک ہے برباد کر کے چھوڑے گا یہ گھر نہ پاؤ گے دریا اگر اتر بھی ...