شاعری

دل نیا ہے نہ ہے خیال نیا

دل نیا ہے نہ ہے خیال نیا صرف الفت کا ہے کمال نیا زندگی ہو گئی پرانی سی روز اٹھتا ہے اک وبال نیا آج پھر مل گیا کوئی اپنا پھر کوئی دے گیا سوال نیا ہم لکیریں کرید کر دیکھیں رنگ لائے گا کیا یہ سال نیا بچ کے عازمؔ کہاں تو جائے گا وقت ڈالے گا کوئی جال نیا

مزید پڑھیے

داغ دل کے جلا گیا کوئی

داغ دل کے جلا گیا کوئی غم کی لذت بڑھا گیا کوئی سارا عالم اسی سے روشن ہے ذرے ذرے پہ چھا گیا کوئی کر گیا عہد ساتھ مرنے کا عمر میری بڑھا گیا کوئی روگ دیوانگی کا باقی تھا وہ بھی آخر لگا گیا کوئی رنگ میرا اڑا ہی جاتا ہے آج پھر مسکرا گیا کوئی شغل رونے کا دے گیا عازمؔ اٹھ کے محفل سے ...

مزید پڑھیے

کبھی صورت نہیں ملتی کبھی سیرت نہیں ملتی

کبھی صورت نہیں ملتی کبھی سیرت نہیں ملتی یہاں انسان سے انسان کی فطرت نہیں ملتی نصیبہ نے ہی بخشا ہے ہر اک کو اس کے حصے کا یہاں اک باپ کے بیٹوں کی بھی قسمت نہیں ملتی کرم مولا کرے تو آدمی بے لوث ہوتا ہے نہ ہو اس کی اگر رحمت تو یہ طاقت نہیں ملتی وہ دنیا میں بھی رہتے ہیں تو ہو کر خود سے ...

مزید پڑھیے

زندگی تو بھی بے وفا نکلی

زندگی تو بھی بے وفا نکلی کیا سمجھتے تھے اور کیا نکلی گھر کے دیوار و در بھی کانپ گئے دل کے گوشے سے جب صدا نکلی رو پڑی وہ ہوئی اداس بہت میرے آنگن سے جب صبا نکلی تار نازک تھے دل کے ٹوٹ گئے چھیڑ کر جب وہ دل ربا نکلی ہم عنایت جسے سمجھ کے چلے وہ بھی آخر کڑی سزا نکلی دوستوں نے کئے کرم ...

مزید پڑھیے

ظرف ہے کس میں کہ وہ سارا جہاں لے کر چلے

ظرف ہے کس میں کہ وہ سارا جہاں لے کر چلے ہم تو دنیا سے فقط اک درد جاں لے کر چلے آدمی کو چاہئے توفیق چلنے کی فقط کچھ نہیں تو گزرے وقتوں کا دھواں لے کر چلے جب بہاریں بے وفا نکلیں تو کس امید پر انتظار گل کی حسرت باغباں لے کر چلے کب مقدر کا کہاں کیسا کوئی منظر بنے ہم ہتھیلی پر لکیروں ...

مزید پڑھیے

زندگی ایک خواب لگتی ہے

زندگی ایک خواب لگتی ہے ہر حقیقت سراب لگتی ہے ساعت قرب تھی کہ موج بہار یاد اس کی گلاب لگتی ہے داستاں میری سن سکو تو سنو درد و غم کی کتاب لگتی ہے اس قدر پیار اس قدر نفرت تیری فطرت حباب لگتی ہے زیست لٹکی ہے اب صلیبوں پر ہر تمنا عذاب لگتی ہے چہرے کمھلا رہے ہیں کلیوں کے نیت گل خراب ...

مزید پڑھیے

قید سے پہلے بھی آزادی مری خطرے میں تھی (ردیف .. ا)

قید سے پہلے بھی آزادی مری خطرے میں تھی آشیانہ ہی مرا صورت نمائے دام تھا واہمہ خلاق آزادی کا حسن افزا سرور ہر فریب رنگ کا پہلے گلستاں نام تھا ضعف آہوں پر بھی غالب ہو چلا تھا اے اجل تو نہ آتی تو یہ میرا آخری پیغام تھا دیدۂ خوں بے خودی کے ہاتھ سے چھوٹا ہوا اک جام تھا

مزید پڑھیے

قید سے پہلے بھی آزادی مری خطرے میں تھی (ردیف .. ا)

قید سے پہلے بھی آزادی مری خطرے میں تھی آشیانہ ہی مرا صورت نمائے دام تھا واہمہ خلاق اور آزادی حسن افزا سرور ہر فریب رنگ کا پہلے گلستاں نام تھا ضعف آہوں پر بھی غالب ہو چلا تھا اے اجل تو نہ آتی تو یہ میرا آخری پیغام تھا دیدۂ خوننابہ افشاں میرا ان کے سامنے بے خودی کے ہاتھ سے چھوٹا ...

مزید پڑھیے

ہزاروں طرح اپنا درد ہم اس کو سناتے ہیں

ہزاروں طرح اپنا درد ہم اس کو سناتے ہیں مگر تصویر کو ہر حال میں تصویر پاتے ہیں بجھا دے اے ہوائے تند مدفن کے چراغوں کو سیہ بختی میں یہ اک بد نما دھبہ لگاتے ہیں مرتب کر گیا اک عشق کا قانون دنیا میں وہ دیوانے ہیں جو مجنوں کو دیوانہ بتاتے ہیں اسی محفل سے میں روتا ہوا آیا ہوں اے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 5795 سے 5858