کچھ اس لئے بھی اسے ٹوٹ کر نہیں چاہا
کچھ اس لئے بھی اسے ٹوٹ کر نہیں چاہا کہ اس کو ٹوٹی ہوئی چیز سے الرجی ہے غزل وہ تیسویں مجھ کو سنا کے کہنے لگی مزید عرض کروں جان من اگر جی ہے
کچھ اس لئے بھی اسے ٹوٹ کر نہیں چاہا کہ اس کو ٹوٹی ہوئی چیز سے الرجی ہے غزل وہ تیسویں مجھ کو سنا کے کہنے لگی مزید عرض کروں جان من اگر جی ہے
ملتے جلتے ہیں یہاں لوگ ضرورت کے لئے ہم ترے شہر میں آئے ہیں محبت کے لئے وہ بھی آخر تری تعریف میں ہی خرچ ہوا میں نے جو وقت نکالا تھا شکایت کے لئے میں ستارہ ہوں مگر تیز نہیں چمکوں گا دیکھنے والے کی آنکھوں کی سہولت کے لئے تم کو بتلاؤں کہ دن بھر وہ مرے ساتھ رہا ہاں وہی شخص جو مشہور ہے ...
پڑھیے سبق یہی ہے وفا کی کتاب کا کانٹے کرا رہے ہیں تعارف گلاب کا کیسا یہ انتشار دیوں کی صفوں میں ہے کچھ تو اثر ہوا ہے ہوا کے خطاب کا یہ طے کیا جو میں نے جنوں تک میں جاؤں گا یہ مرحلہ اہم ہے مرے اضطراب کا مانا بہت حسین تھا وہ عمر کا پڑاؤ قصہ مگر نہ چھیڑئیے عہد شباب کا اظہرؔ کہیں سے ...
نیند پلکوں پہ یوں رکھی سی ہے آنکھ جیسے ابھی لگی سی ہے اپنے لوگوں کا ایک میلہ ہے اپنے پن کی یہاں کمی سی ہے خوب صورت ہے صرف باہر سے یہ عمارت بھی آدمی سی ہے میں ہوں خاموش اور مرے آگے تیری تصویر بولتی سی ہے چارہ سازو مرا علاج کرو آج کچھ درد میں کمی سی ہے
داغ چہرے کا یونہی چھوڑ دیا جاتا ہے آئنہ ضد میں مگر توڑ دیا جاتا ہے تیری شہرت کے پس پردہ مرا نام بھی ہے تیری لغزش سے مجھے جوڑ دیا جاتا ہے کوئی کردار ادا کرتا ہے قیمت اس کی جب کہانی کو نیا موڑ دیا جاتا ہے اک توازن جو بگڑتا ہے کبھی روح کے ساتھ شیشۂ جسم وہیں پھوڑ دیا جاتا ہے
زیست عنوان تیرے ہونے کا دل کو ایمان تیرے ہونے کا مجھ کو ہر سمت لے کے جاتا ہے ایک امکان تیرے ہونے کا آ گیا وقت میرے بعد آخر اب پریشان تیرے ہونے کا آنکھ منظر بناتی رہتی ہے یعنی سامان تیرے ہونے کا میرا ہونا بھی ایک پہلو ہے ہاں مری جان تیرے ہونے کا
سلسلہ یوں بھی روا رکھا شناسائی کا کوئی رشتہ تو رہے آنکھ سے بینائی کا تبصرہ خوب یہاں تیر کی رفتار پہ ہے تذکرہ کون کرے زخم کی گہرائی کا محترم کہہ کے مجھے اس نے پشیمان کیا کوئی پہلو نہ ملا جب مری رسوائی کا تنگ آ کر تری یادوں کو پرے جھٹکا ہے مرثیہ کون پڑھے روز کی تنہائی کا اپنے ...
نہ جانے شام نے کیا کہہ دیا سویرے سے اجالے ہاتھ ملانے لگے اندھیرے سے شجر کے حصے میں بس رہ گئی ہے تنہائی ہر اک پرندہ روانہ ہوا بسیرے سے جو اس کی بین کی دھن پر ہوا ہے رقص انداز ٹھنی رہی ہے اسی سانپ کی سپیرے سے ابھی یہ روشنی چبھتی ہوئی ہے آنکھوں میں ابھی ہم اٹھ کے چلے آئے ہیں ...
ادھر محسوس ہوتی ہے کمی اس کی ادھر میں بھول جاتا ہوں گلی اس کی میں دریا ہو بھی جاؤں گا تو کیا ہوگا مجھے معلوم ہے جب تشنگی اس کی وہ جس کی رات دن تسبیح کرتے ہیں کبھی دیکھی نہیں تصویر بھی اس کی جہاں جائے ہمیں بھی ساتھ لے جائے کہیں بے گھر نہ کر دے بے گھری اس کی وہ اکثر خالی گھر میں ...
پنچھیوں کی کسی قطار کے ساتھ بال و پر بھی گئے بہار کے ساتھ کام آسان تو نہیں پھر بھی جی رہے ہیں دل فگار کے ساتھ آنسوؤں کی طرح وجود مرا بہتا جاتا ہے آبشار کے ساتھ اڑ رہا ہے جو تیری گلیوں میں میں بھی شامل ہوں اس غبار کے ساتھ شام وحشت کہاں پہ لے آئی تو مجھے اپنے انتظار کے ساتھ اور ...