دل خستگاں میں درد کا آذر کوئی تو آئے
دل خستگاں میں درد کا آذر کوئی تو آئے پتھر سے میرے خواب کا پیکر کوئی تو آئے دریا بھی ہو تو کیسے ڈبو دیں زمین کو پلکوں کے پار غم کا سمندر کوئی تو آئے چوکھٹ سے حال پوچھا تو بازار سے سنا اک دن غریب خانے کے اندر کوئی تو آئے جو زخم دوستوں نے دیے ہیں وہ چھپ تو جائیں پر دشمنوں کی سمت سے ...