شاعری

مواخذہ

ہمارے ساتھ جو کچھ راہزن بھی ہیں ماخوذ وہ اہل شہر کے کہنے سے چھوٹ جائیں گے گواہ کفر ہمیں میں ہے کون پہچانے ہمیں تو ایک سے لگتے ہیں آج سب چہرے ہمارا جرم تو روپوش بھی نہیں اب کے کسی گواہ کی حاجت نہیں سزا کے لئے دیار غم کی صدائے نہفتہ پہچانو ہوائے‌ جبر چراغ نفس کے در پہ ہے یہ اور بات ...

مزید پڑھیے

میں!

میں جیتا ہوں آئینوں میں آئینے غم خانے ہیں میرا عکس بنا لیتے ہیں اپنی اپنی مرضی سے میں جیتا ہوں کچھ سینوں میں سینے آئینہ خانے ہیں میرا نقش بنا لیتے ہیں اپنی اپنی مرضی سے میں جیتا ہوں مٹی پر مٹی جس سے گھر بنتے ہیں جس سے قبریں بنتی ہیں جس کا ذرہ ذرہ اوروں کا ہے ان کا جن میں میں ہوں جو ...

مزید پڑھیے

انا

اک نگار تنہائی انجمن سے نالاں بھی انجمن طلب بھی ہے ایک وہم یکتائی زندگی کا ساماں بھی موت کا سبب بھی ہے اک جنون دارائی خود رقیب ہے اپنا خود حریف یزداں ہے خواب ہے تو ایقاں ہے وہم ہے تو ایماں ہے اک حصار آئینہ سنگ زن کی زد میں ہے ایک بے کراں قلزم آب جو کی حد میں ہے اک فنا کا ...

مزید پڑھیے

باقیست شب فتنہ

اندھیرے میں چلا ہے کاروان بے جرس کوئی بلند و پست کوئی ہے نہ اس کا پیش و پس کوئی فقط آواز پائے رہرواں ہے ہم سفر اپنی شریک کارواں کتنے ہیں کتنے ہم سفر ہیں کون رہبر کون رہزن ہے کہاں پر کون ہے کس کنج میں کس کا بسیرا ہے خدا جانے یہاں تو بس اندھیرا ہی اندھیرا ہے کچھ آوازیں ہیں آوازوں کے ...

مزید پڑھیے

ایک منظر، ایک عالم

دن ڈھلے مندروں کے کلس مسجدوں کے منارے گھروں کی چھتیں سونے چاندی کے پانی سے دھلنے لگے قلۂ کوہ سے چشم نظارہ لیکن بڑی دور تک پگھلے سونے کی چادر کے نیچے تڑپتا ہوا گہری ظلمت کا ایک بحر ذخار بھی دیکھتی رہ گئی کیسا منظر ہے یہ میں ابھی عمر کے ڈھلتے سورج کی دنیا نہیں پھر بھی میرے سنہرے دو ...

مزید پڑھیے

رفتگاں

تم یہاں سو جاؤ تم کو یہ جگہ بھی گر نہ ملتی تم گلہ ہم سے نہ کرتے ہم تمہارے ساتھ کچھ مٹی دیے جاتے ہیں اسی مٹی سے اب ہم رنگ ہو جاؤ یہ سناٹا تمہارے ساتھ ہے اب اس سے ہم آہنگ ہو جاؤ تمہارے چاند سورج مر چکے ہیں تمہاری روشنی ظلمت امید و ناامیدی ناؤ کاغذ کی گھروندے ریت کے بچپن جوانی، عمر کا ...

مزید پڑھیے

صدائے گنبد‌‌ بے روزن و در

کیسی آواز ہے کوئی کہتا ہے یہ دشت موجود‌‌ و مشہور و موہوم بس حد ادراک و احساس و آواز تک ہی نہیں چشم و دل کا یہ طائر جسے سیر پرواز سمجھے ہو مجبور ہے مشت پر سر بریدہ و پابند ہی اس کا سرمایہ ہے جس پہ مغرور ہے تا بہ حد خرد تا بہ حد جنوں جو بھی ہے ہیچ و بے مایہ ہے کیا غرض اس سے یہ کیا ہے ...

مزید پڑھیے

کاواک

سب آنکھیں ٹانگوں میں جڑی ہیں ریڑھ کی ہڈی کے منکوں میں کان لگے ہیں ناف کے اوپر روئیں روئیں میں ایک زباں ہے پتلونیں ساری آوازیں سن لیتی ہیں دو پتلونیں جھگڑ رہی ہیں ''اتنی قیمت کیوں لیتی ہو تم میں ایسی کیا خوبی ہے'' کیسے گاہک ہو تم آخر مول بدن کا دے سکتے ہو پتی ورتا کا مول تمہارے پاس ...

مزید پڑھیے

عہد نامۂ امروز

اور پھر یوں ہوا دن کا اگلا پہر سبز زیتون کی چھاؤں میں کاٹ کر ابن آدم اٹھا اپنے اک ہاتھ میں سانپ اور دوسرے ہاتھ میں اک ممولا لیے عرش کی سمت جاتے ہوئے مڑ کے وادی کے لوگوں سے اس نے کہا ''مجھ پہ ایمان لاؤ خدا مر چکا ہے یہ افلاک و آفاق کا بار اب میرے شانوں پہ ہے مہر و ماہ و کواکب سبھی میرے ...

مزید پڑھیے

بین العدمین

یہ تضاد جان و جسد جسے تو وصال کہہ لے فراق میں تو نشاط کہہ لے مراق میں تو رواق کہہ لے کہ بحر و بر میں مذاق کہہ لوں کہ خیر و شر تیرے میرے کہنے میں کچھ نہیں کہ ترا یقین مرا گماں کہ مرا گمان ترا یقیں ترے درک و ہوش و حواس کی مرے وجد و وہم و قیاس کی یہی ایک پل تو اساس ہے یہی ایک پل ترے پاس ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4690 سے 5858