شاعری

آسماں ساحل سمندر اور میں

آسماں ساحل سمندر اور میں کھلتا پھر یادوں کا دفتر اور میں چار سمتیں آئینہ سی ہر طرف تم کو کھو دینے کا منظر اور میں میرا اجلا پن نئے انداز میں تیری بخشش میلی چادر اور میں ایک مورت میں تجربے نت نئے کتنے بے کل میرا آذر اور میں کھلتے ہیں اسرار عجب آلام میں بند ہوتا وہ ہر اک در اور ...

مزید پڑھیے

تلازم

تعلق مجھ میں تم میں کیا ہے تم مانو نہ مانو تم اسے ٹھکراؤ یا جھٹلاؤ لیکن یہ حقیقت ہے تمہیں میری ضرورت ہے بہت خوش دید ہیں آنکھیں تمہاری خوش نظر بھی ہیں مگر کیا اپنی آنکھوں سے کبھی تم اپنی آنکھیں دیکھ سکتی ہو

مزید پڑھیے

چور بازار

کاٹھ کے بیل مرد، شیشے کی پتلیاں عورتیں، پسینے کی بوندیاں، گل مہک شمیم بدن چاک دل زخم جیب و پیراہن کار، لاری، کواڑ آنکھیں، فن، لعل و الماس آہن و فولاد قہقہے، چہچہے، فغاں، فریاد سوئی، ہاتھی، اناتھ، بچے، دل تشنگی، تلخیاں، تجلی، دید کون سی آس، کون سی امید کون سی جنس چاہئے تجھ ...

مزید پڑھیے

دل بیتاب کو بہلا چکی ہوں

دل بیتاب کو بہلا چکی ہوں ستارے آسماں سے لا چکی ہوں نگاہ کہکشاں سے پوچھ لینا شعاع زندگانی پا چکی ہوں خرد کی تنگ وادی سے نکل کر جنوں کی منزلت اپنا چکی ہوں اندھیروں میں چراغاں کرنے والو اجالوں میں اندھیرا پا چکی ہوں زمیں کی پستیوں کو کیوں گلہ ہے جنہیں میں آسماں بتلا چکی ...

مزید پڑھیے

سوز دل و جاں اور ہے ساز دل و جاں اور

سوز دل و جاں اور ہے ساز دل و جاں اور احساس بیاں اور ہے ادراک نہاں اور دنیائے محبت میں زمیں اور زماں اور اک شعلہ بجاں نغمہ کناں راز نہاں اور شاعر کا جہاں اور ہے شاطر کا جہاں اور مفہوم محبت کا یہاں اور وہاں اور اے چاند کی مفلوج فضاؤں کے مسافر ہے منتظر دید ابھی بزم جہاں اور خود ...

مزید پڑھیے

ہیں کشمکش میں آج تری داستاں سے ہم

ہیں کشمکش میں آج تری داستاں سے ہم اے دل شروع کریں یہ حکایت کہاں سے ہم تیرا خلوص تیری محبت تری نظر کس طرح چھین لائیں مہ و کہکشاں سے ہم نازاں ہے کوئی اپنے تغافل پہ مرحبا مجبور ہو رہے دل ناز داں سے ہم جوش جنوں نے تھام لیا ہے خلوص ہے گزرے قدم قدم پہ نئے امتحاں سے ہم قحط وفا میں ...

مزید پڑھیے

سنو گے تم بھی مری داستاں کبھی نہ کبھی

سنو گے تم بھی مری داستاں کبھی نہ کبھی اثر دکھائے گا درد نہاں کبھی نہ کبھی کبھی تو آتش نمرود سرد بھی ہوگی قرار پائے گا قلب تپاں کبھی نہ کبھی یہ آج گردش شام و سحر بتاتی ہے نظر بچائے گا خود آسماں کبھی نہ کبھی کبھی تو گوہر نایاب ہاتھ آئے گا ملے گا روح خودی کا نشاں کبھی نہ کبھی جمود ...

مزید پڑھیے

حسن کی بے وفائیاں توبہ

حسن کی بے وفائیاں توبہ عشق کی سر گرانیاں توبہ مضمحل قلب منتشر ایماں مضطرب نوجوانیاں توبہ ہے رعونت کا آئینہ ششدر اف تری خود نمائیاں توبہ ایک بے نام سی خلش شاید اور خرد کی گواہیاں توبہ راستے ہیں جنوں کے ملتی ہیں اونچی نیچی سی کھائیاں توبہ لب کشمیر پر مچلتی ہیں کچھ سلگتی ...

مزید پڑھیے

آرزوئے دل ناکام سے ڈر لگتا ہے

آرزوئے دل ناکام سے ڈر لگتا ہے زندگانی ترے پیغام سے ڈر لگتا ہے پھر کسی جذبۂ گمنام سے ڈر لگتا ہے حسن معصوم پہ الزام سے ڈر لگتا ہے شیشۂ دل پہ کوئی ٹھیس نہ لگنے پائے تلخیٔ مے سے نہیں جام سے ڈر لگتا ہے جس کو آغاز محبت کا نہیں ہے احساس بس اسے عشق کے انجام سے ڈر لگتا ہے وقت کے ساتھ بدل ...

مزید پڑھیے

مرجھائے ہوئے پھر گل تر دیکھ رہی ہوں

مرجھائے ہوئے پھر گل تر دیکھ رہی ہوں ناقدرئ ارباب ہنر دیکھ رہی ہوں پھر چشم تغافل سے تری حشر بپا ہے میں گردش دوراں کی نظر دیکھ رہی ہوں مژگاں پہ لرزتے ہوئے اشکوں کے دیے ہیں وابستۂ جاں برق و شرر دیکھ رہی ہوں کیا حسن بصارت میں بصیرت کی کمی ہے کچھ اہل نظر چاک جگر دیکھ رہی ہوں پندار ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4688 سے 5858