شاعری

جلتی بجھتی ہوئی آنکھوں میں ستارے لکھے

جلتی بجھتی ہوئی آنکھوں میں ستارے لکھے باب لکھے نہیں عنوان تو سارے لکھے منظر غم تھا شفق رنگ کہاں عکس اترا خون کا رنگ لکھا شام کے پیارے لکھے نذر طوفان ہوئے سارے سفینوں کے چراغ وہ اندھیرے جو نگاہوں نے سہارے لکھے پیکر و رضا واقف رمز ہستی دست لمحات نے یوں نام ہمارے لکھے آگہی نے ...

مزید پڑھیے

فضا کا رنگ نکھرتا دکھائی دیتا ہے

فضا کا رنگ نکھرتا دکھائی دیتا ہے ہے شب تمام کہ سپنا دکھائی دیتا ہے لہو کا رنگ ہے مٹ کر بھی رنگ لائے گا افق کا رنگ سنہرا دکھائی دیتا ہے وہ جس نے دھوپ کے میلے کو چھت مہیا کی سڑک پہ اس کا بسیرا دکھائی دیتا ہے میں کون ہوں کہ ہے سب کانچ کا وجود مرا مرا لباس بھی میلا دکھائی دیتا ...

مزید پڑھیے

پر صعوبت راستوں کی گرمیاں بھی دے گیا

پر صعوبت راستوں کی گرمیاں بھی دے گیا آنے والی چھاؤں کی خوش فہمیاں بھی دے گیا سخت بیجوں سے سنہری بالیاں بھی بھر گئیں گرم جھونکا موسموں کی سختیاں بھی دے گیا بادلوں کی آس اس کے ساتھ ہی رخصت ہوئی شہر کو وہ آگ کی بے رحمیاں بھی دے گیا احتساب اس کا عمل تھا اس سے وہ فارغ ہوا وقت سڑکوں ...

مزید پڑھیے

غبار جاں پس دیوار و در سمیٹا ہے

غبار جاں پس دیوار و در سمیٹا ہے دیار سنگ میں شیشے کا گھر سمیٹا ہے سمندروں میں بھی سورج نے بو دیئے ہیں سراب گئے تھے سیپ اٹھانے بھنور سمیٹا ہے صعوبتوں کی کوئی حد نہ آخری دیکھی ہر ایک راہ میں زاد سفر سمیٹا ہے محبتوں نے دیا ہے صداقتوں کا شعور بکھر گیا ہے جب اک بار گھر سمیٹا ہے ہوا ...

مزید پڑھیے

تاریک اجالوں میں بے خواب نہیں رہنا

تاریک اجالوں میں بے خواب نہیں رہنا اس زیست کے دریا کو پایاب نہیں رہنا سرسبز جزیروں کی ابھرے گی شباہت بھی اس زیست سمندر کو بے آب نہیں رہنا اس ہجر مسلسل کی عادت بھی کبھی ہوگی ہونٹوں پہ صدا غم کا زہراب نہیں رہنا چھن چھن کے بہے گا دن بادل کی رداؤں سے سورج کی شعاعوں کو نایاب نہیں ...

مزید پڑھیے

ہوا کے لب پہ نئے انتساب سے کچھ ہیں

ہوا کے لب پہ نئے انتساب سے کچھ ہیں کہ شاخ وصل پہ تازہ گلاب سے کچھ ہیں یہ پل کا قصہ ہے صدیوں پہ جو محیط رہا بر آب ساعت گزراں حباب سے کچھ ہیں ہجوم ہم کو سر آنکھوں پہ کیوں بٹھائے رہا دل و نظر پہ ہمارے عذاب سے کچھ ہیں لہو رلاتے ہیں اور پھر بھی یاد آتے ہیں محبتوں کے پرانے نصاب سے کچھ ...

مزید پڑھیے

مسئلے زیر نظر کتنے تھے

مسئلے زیر نظر کتنے تھے اہل دل اہل ہنر کتنے تھے حشر آئے تو یہی فیصلہ ہو کتنے انساں تھے بشر کتنے تھے کاسۂ چشم میں امید لئے جو بھی تھے خاک بسر کتنے تھے ساری بستی میں مکاں تھے بے حد جو کھلے رہتے تھے در کتنے تھے وہ جو آسائشوں میں تلتے تھے سنگ مرمر کے وہ گھر کتنے تھے تجھ کو پائیں ...

مزید پڑھیے

گرے قطروں میں پتھر پر صدا ایسا بھی ہوتا ہے

گرے قطروں میں پتھر پر صدا ایسا بھی ہوتا ہے بھلا ہو کر بھلا نام خدا ایسا بھی ہوتا ہے دلوں میں تلخیاں پھر بھی نظر میں مسکراہٹ ہو بلا کے حبس میں بھی ہو ہوا ایسا بھی ہوتا ہے میں خود سے اجنبی ہو کر قبائے خوش دلی پہنوں مرے اندر رہے کوئی چھپا ایسا بھی ہوتا ہے کنار آب دجلہ دھوپ تپتی ہو ...

مزید پڑھیے

کچھ نہیں ہوتا شب بھر سوچوں کا سرمایا ہوتا ہے

کچھ نہیں ہوتا شب بھر سوچوں کا سرمایا ہوتا ہے ہم نے صحن کے اک کونے میں دیا جلایا ہوتا ہے شام طرب کے لمحو اس کو مت آوازیں دیا کرو رات نے اپنے سر پر غم کا بوجھ اٹھایا ہوتا ہے جلتے ہیں تو پیڑ ہی جلتے ہیں سورج کی حدت سے پھولوں پر تو پتوں کی ٹھنڈک کا سایا ہوتا ہے میں نے آج تلک نہ دیکھا ...

مزید پڑھیے

اب آنکھ بھی مشاق ہوئی زیر و زبر کی

اب آنکھ بھی مشاق ہوئی زیر و زبر کی خواہش تو تری گھاٹ کی رہ پائی نہ گھر کی رنگ اپنے جو تھے بھر بھی کہاں پائے کبھی ہم ہم نے تو سدا رد عمل میں ہی بسر کی جب صرف ترے گل میں مرا حصہ نظر ہے پھر سوچ ہے کیا درد یہ تاخیر نظر کی یہ کوفے کی گلیاں ہیں کہ یہ میری رگیں بھی ہر سمت سے چبھتی ہے انی ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4687 سے 5858