شاعری

نہیں نہیں یہ مرا عکس ہو نہیں سکتا

نہیں نہیں یہ مرا عکس ہو نہیں سکتا کسی کے سامنے میں یوں تو رو نہیں سکتا تھکن سے چور ہے سارا وجود اب میرا میں بوجھ اتنے غموں کا تو ڈھو نہیں سکتا تجھے غزل تو سناتا ہوں آج بابرؔ کی مگر میں اشکوں سے دامن بھگو نہیں سکتا

مزید پڑھیے

کسی کے جال میں آ کر میں اپنا دل گنوا بیٹھا

کسی کے جال میں آ کر میں اپنا دل گنوا بیٹھا مجھے تھا عشق قاتل سے میں اپنا سر کٹا بیٹھا غضب کا سنگ دل آغاز سے ہی بے مروت تھا کہ جس سے دور رہنا تھا میں اس کے پاس جا بیٹھا مرا معبود تو عشق بتاں سے لاکھ افضل تھا مجھے کس سے لگانا تھا میں دل کس سے لگا بیٹھا

مزید پڑھیے

داستان غم تجھے بتلائیں کیا

داستان غم تجھے بتلائیں کیا زخم سینے کے تجھے دکھلائیں کیا سوچتے ہیں بھول جائیں سرزنش مدتوں کی بات اب جتلائیں کیا لوگ اس کی بات تو سنتے نہیں خضر کو جنگل سے ہم بلوائیں کیا روز تم وعدہ نیا لے لیتے ہو پاس ان وعدوں کا ہم رکھ پائیں کیا مفلسی نے جا بجا لوٹا ہمیں اب بچا کچھ بھی نہیں ...

مزید پڑھیے

دل نے ہم سے عجب ہی کام لیا

دل نے ہم سے عجب ہی کام لیا ہم کو بیچا مگر نہ دام لیا دل سے آخر چراغ وصل بجھا کیا تمنا نے انتقام لیا پھر کبھی وہ نہ آئی ہم کو نظر جس پری رو کا ہم نے نام لیا تیری خاطر ہنوز ہم نے یہاں لاکھ الزام اپنے نام لیا تا دم مرگ عشق جیتا رہا گور میں بھی مرا سلام لیا

مزید پڑھیے

یاس کی کہر میں لپٹا ہوا چہرہ دیکھا

یاس کی کہر میں لپٹا ہوا چہرہ دیکھا جسم کا ایک بگڑتا ہوا خاکہ دیکھا اپنی صورت بھی نہ پہچان سکی آنکھ مری مدتوں بعد جو میں نے کبھی شیشہ دیکھا شہر پر ہول میں اب کے یہ عجب منظر تھا سنگ کشادہ تھا مگر سنگ کو بستہ دیکھا میں بھی گم صم تھا کوئی بات نہ کرنے پایا اس کے ہونٹوں پہ بھی جیسے ...

مزید پڑھیے

شہر بدلا ہوا سا لگتا ہے

شہر بدلا ہوا سا لگتا ہے ہر کوئی اوپرا سا لگتا ہے مجھ کو اکثر خود اپنے اندر ہی کچھ بھٹکتا ہوا سا لگتا ہے جانے کیا بات ہے کہ گھر مجھ کو روز گرتا ہوا سا لگتا ہے مجھ کو ہر شخص اپنی بستی کا خود سے روٹھا ہوا سا لگتا ہے درد سے یوں نجات کب ہوگی وقت ٹھہرا ہوا سا لگتا ہے زخم کھائے ہوئے ...

مزید پڑھیے

کوئی منزل بھی نہیں ہے کوئی رستہ بھی نہیں

کوئی منزل بھی نہیں ہے کوئی رستہ بھی نہیں اور سب محو سفر ہیں کوئی رکتا بھی نہیں ہر طرف بے رنگ سی گہری اداسی کا جماؤ ایک رنگیں خواب جو نظروں سے ہٹتا بھی نہیں کس طرح تھامے ہوئے ہیں خود کو اس بستی کے لوگ کوئی متوازن نہیں ہے اور پھسلتا بھی نہیں اک مسلسل سی یہ سعئ رائیگاں یہ ...

مزید پڑھیے

رات کیا ڈھل گئی سمندر میں

رات کیا ڈھل گئی سمندر میں گھل گئی تیرگی سمندر میں ایک سرخی پہاڑ سے ابھری پھر اترتی گئی سمندر میں اک سفینہ کہیں پہ ڈوبا تھا کتنی ہلچل ہوئی سمندر میں خود سمندر کی نیند ٹوٹ گئی رات کچھ یوں ڈھلی سمندر میں غرق ہوتا گیا کوئی صحرا دھول اڑتی گئی سمندر میں کوئی طوفاں ضرور اٹھنا ...

مزید پڑھیے

چاہا جن کو بھی زندگی کی طرح

چاہا جن کو بھی زندگی کی طرح وہ ملے مجھ کو اجنبی کی طرح مجھ کو الہام ہو گیا شاید بات کرتا ہوں اک نبی کی طرح جانے کتنے سوال ابھرے ہیں جب بھی سوچا ہے فلسفی کی طرح سارا منظر نکھرتا جاتا ہے کون ہنستا ہے آپ ہی کی طرح خوب چرچا ہے گو سویروں کا رات پھر بھی ہے رات ہی کی طرح وقت کی بات ہے ...

مزید پڑھیے

پھر فضا میں کوئی زہریلا دھواں بھر جائے گا

پھر فضا میں کوئی زہریلا دھواں بھر جائے گا پھر کسی دن اپنے اندر کچھ نہ کچھ مر جائے گا پھیلتا جاتا ہے یہ جو ہر طرف اک شور سا ایک سناٹا کسی دہلیز پر دھر جائے گا یوں رہا تو سارے منظر بد نما ہو جائیں گے اک بھیانک رنگ ہر تصویر میں بھر جائے گا کر رہا ہے اپنی بستی میں جو خوشیوں کی ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4673 سے 5858