میں بتاتا ہوں زوال اہل یورپ کا پلان (ردیف .. و)
میں بتاتا ہوں زوال اہل یورپ کا پلان اہل یورپ کو مسلمانوں کے گھر پیدا کرو
میں بتاتا ہوں زوال اہل یورپ کا پلان اہل یورپ کو مسلمانوں کے گھر پیدا کرو
زندگی ہے مختلف جذبوں کی ہمواری کا نام آدمی ہے شلجم اور گاجر کی ترکاری کا نام علم الماری کا مکتب چار دیواری کا نام ملٹنؔ اک لٹھا ہے مومنؔ خان پنساری کا نام اس نے کی پہلے پہل پیمائش صحرائے نجد قیس ہے دراصل اک مشہور پنواڑی کا نام عشق ہرجائی بھی ہو تو درد کم ہوتا نہیں اک ذرا تبدیل ...
خوشا اے ووٹرو! لو میں بھی اک منشور لایا ہوں تمناؤں کی بھوری بیریوں پر بور لایا ہوں میں اپنی خود کشیدہ بھاپ پر آزاد لڑتا ہوں اکیلا سارے استادوں سے بے استاد لڑتا ہوں رقیبوں کو بھروسا ہوگا اپنے کارناموں پر مجھے ہے فخر اپنے ماہر فن خانساموں پر ہر اک دل بند حاجت مند کو خورسند کر دوں ...
استاد وہ بادل کا اک پارہ ہے کیا پیارا ہے تم دیکھتے ہو شاگرد بے شک بے شک ہم دیکھتے ہیں یہ بادل کا اک پارہ ہے سر جی سر جی ہم دیکھتے ہیں یہ بادل کتنا پیارا ہے استاد تم اس کو نظر جما دیکھو تعمیر دکھائی دیتی ہے دیکھو دیکھو اک اونٹ دکھائی دیتا ہے گڑ گیہوں کے بھاری بورے اف کتنا بوجھ ...
ان فلک جا عمارتوں پہ نہ جا ان کی بنیاد میں ملاوٹ ہے یوں تو ہر چیز ہے یہاں خالص لیکن اولاد میں ملاوٹ ہے
مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار میں روزے سے ہوں ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار میں روزے سے ہوں ہر کسی سے کرب کا اظہار میں روزے سے ہوں دو کسی اخبار کو یہ تار میں روزے سے ہوں میرا روزہ اک بڑا احسان ہے لوگو کے سر مجھ کو ڈالو موتیے کے ہار میں روزے سے ہوں میں نے ہر فائل کی دمچی پر یہ مصرع لکھ ...
اگرچہ نم تو کم ہے ان کے اندر مگر بادل برس جاتے بہت ہیں ہمیں تو جتنے امریکن ملے ہیں سمجھتے کم ہیں سمجھاتے بہت ہیں
اس کسان کو دیکھو زندگی کے پتھر سے جسم ٹوٹتا ہوا گاؤں میں جس کے گھر اداس ہیں حسرتوں اور آنسوؤں کے نم کے غم نواس ہیں جا رہا ہے استخوان سر درد اک جلے بجھے ہوئے زرد زرد گرد گرد رستے پر اس کا علم لیے جبر میں بھی صبر اور سپاس کے قدم لیے وقت سویا سویا ہے خواب جاگے جاگے ہیں بیل آگے آگے ...
وہ شانوں پہ زرکار آنچل اچھالے ادھر سے ادھر مست زلفوں کو ڈالے میاں اور بچے خدا کے حوالے حسیں ہاتھ میں نرم فائل سنبھالے کس انداز سے ناز فرما رہی ہے کہ جیسے چمن میں بہار آ رہی ہے مباحث میں یوں گرم گفتار ہیں سب کہ بس لڑنے مرنے کو تیار ہیں سب فسوں کار ہیں سب طرح دار ہیں سب برابر برابر ...
تھا کبھی علم آدمی دل آدمی پیار آدمی آج کل زر آدمی قصر آدمی کار آدمی کلبلاتی بستیاں مشکل سے دو چار آدمی کتنا کم یاب آدمی ہے کتنا بسیار آدمی پتلی گردن پتلے ابرو پتلے لب پتلی کمر جتنا بیمار آدمی اتنا طرحدار آدمی زندگی نیچے کہیں منہ دیکھتی ہی رہ گئی کتنا اونچا لے گیا جینے کا ...