آدمی

تھا کبھی علم آدمی دل آدمی پیار آدمی
آج کل زر آدمی قصر آدمی کار آدمی


کلبلاتی بستیاں مشکل سے دو چار آدمی
کتنا کم یاب آدمی ہے کتنا بسیار آدمی


پتلی گردن پتلے ابرو پتلے لب پتلی کمر
جتنا بیمار آدمی اتنا طرحدار آدمی


زندگی نیچے کہیں منہ دیکھتی ہی رہ گئی
کتنا اونچا لے گیا جینے کا معیار آدمی


عمر بھر صحرا نوردی کی مگر شادی نہ کی
قیس دیوانہ بھی تھا کتنا سمجھ دار آدمی


دانش و حکمت کی ساری روشنی کے باوجود
کم ہی ملتا ہے زمانے میں کم آزار آدمی


دل رہیں ہیں صومعۂ دستار رہن میکدہ
تھا ضمیر جعفریؔ بھی اک مزے دار آدمی


پہلے کشتی ڈوب جاتی تھی نظر کے سامنے
اب گرے گا بحر اوقیانوس کے بار آدمی