اس توقع پہ کہ دیکھوں کبھی آتے جاتے
اس توقع پہ کہ دیکھوں کبھی آتے جاتے گھس گئے پاؤں رہ دوست میں جاتے جاتے فکر دوزخ میں ہمیں رفع معاصی کی پڑی آگ پر دامن تر کو ہیں سکھاتے جاتے غیر کا زور چلے ان پہ اور ان کا مجھ پر کہتے ہیں منہ سے ہو کیوں رال اڑاتے جاتے غیر کو لے کے گرانی کی نہ ٹھہری ہوتی اپنے دروازے سے مجھ کو نہ ...