حقیقت زیست کی سمجھا نہیں ہے
حقیقت زیست کی سمجھا نہیں ہے وہ اپنے دشت سے گزرا نہیں ہے اندھیرے رقص کرتے ہیں مسلسل کہ سورج رات کو آتا نہیں ہے کرے گا خود کشی ہی ایک دن وہ سکوں جس ذہن کو ملتا نہیں ہے اٹھائے گھومتی ہے زرد پتے ہوا سے اور کچھ چلتا نہیں ہے نہ ڈوبو شمع میں پروانو تم، یہ دہکتی آگ ہے دریا نہیں ...