ترے سینے میں دم ہے دل نہیں ہے
ترے سینے میں دم ہے دل نہیں ہے ترا دم گرمئ محفل نہیں ہے گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے!
ترے سینے میں دم ہے دل نہیں ہے ترا دم گرمئ محفل نہیں ہے گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے!
ظلام بحر میں کھو کر سنبھل جا تڑپ جا پیچ کھا کھا کر بدل جا نہیں ساحل تری قسمت میں اے موج! ابھر کر جس طرف چاہے نکل جا!
خودی کی خلوتوں میں گم رہا میں خدا کے سامنے گویا نہ تھا میں! نہ دیکھا آنکھ اٹھا کر جلوۂ دوست قیامت میں تماشا بن گیا میں!
مکانی ہوں کہ آزاد مکاں ہوں جہاں میں ہوں کہ خود سارا جہاں ہوں وہ اپنی لا مکانی میں رہیں مست مجھے اتنا بتا دیں میں کہاں ہوں
ترا تن روح سے نا آشنا ہے عجب کیا آہ تیری نارسا ہے تن بے روح سے بے زار ہے حق خدائے زندہ زندوں کا خدا ہے
کوئی دیکھے تو میری نے نوازی نفس ہندی مقام نغمہ تازی! نگہ آلودۂ انداز افرنگ! طبیعت غزنوی قسمت ایازی!
تری دنیا جہان مرغ و ماہی مری دنیا فغان صبح گاہی تری دنیا میں میں محکوم و مجبور مری دنیا میں تیری پادشاہی!
عطا اسلاف کا جذب دروں کر شریک زمرۂ لا یحزنوں،کر خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر
جب تجربہ کی دھوپ میں احساس آیا الفاظ نے پیراہن شعری بخشا آنکھوں میں چمک اٹھے ہزاروں دیپک مفہوم کا چہرہ بھی نظر میں ابھرا
گم کردۂ منزل ہوئی آواز درا الفاظ کا رشتہ نہ معانی سے رہا احساس کے قدموں کی تھکن کیا پوچھو اظہار تک آیا نہیں دم پھول گیا