مرض پیری لا علاج ہے
اب ضعف کے پنجہ سے نکلنا معلوم پیری کا جوانی سے بدلنا معلوم کھوئی ہے وہ چیز جس کا پانا ہے محال آتا ہے وہ وقت جس کا ٹلنا معلوم
اب ضعف کے پنجہ سے نکلنا معلوم پیری کا جوانی سے بدلنا معلوم کھوئی ہے وہ چیز جس کا پانا ہے محال آتا ہے وہ وقت جس کا ٹلنا معلوم
پوچھا جو کل انجام ترقیٔ بشر یاروں سے کہا پیر مغاں نے ہنس کر باقی نہ رہے گا کوئی انسان میں عیب ہو جائیں گے چھل چھلا کے سب عیب و ہنر
اے عیش و طرب تو نے جہاں راج کیا سلطاں کو گدا غنی کو محتاج کیا ویراں کیا تو نے نینواؔ اور بابلؔ بغداد کو 'قرطبہ' کو تاراج کیا
دھونے کی ہے اے رفارمر جا باقی کپڑے پہ ہے جب تلک کہ دھبا باقی ہے دھو شوق سے دھبے کو پہ اتنا نہ رگڑ دھبا رہے کپڑے پہ نہ کپڑا باقی
حق بول کے اہل شر سے اڑنا نہ کہیں بھڑکے گی مدافعت سے اور آتش کیں گر چاہتے ہو کہ چپ رہیں اہل خلاف جز ترک خلاف کوئی تدبیر نہیں
جب مایوسی دلوں پہ چھا جاتی ہے دشمن سے بھی نام تیرا جپواتی ہے ممکن ہے کہ سکھ میں بھول جائیں اطفال لیکن انہیں دکھ میں ماں ہی یاد آتی ہے
حالیؔ کو جو کل فسردہ خاطر پایا پوچھا باعث تو ہنس کے یہ فرمایا رکھو نہ اب اگلی صحبتوں کی امید وہ وقت گئے اب اور موسم آیا
مصروف جو یوں وظیفہ خوانی میں ہیں آپ خیر اپنی سمجھتے بے زبانی میں ہیں آپ بولیں کچھ منہ سے یا نہ بولیں حضرت معلوم ہے ہم کو جتنے پانی میں ہیں آپ
ترا اندیشہ افلاکی نہیں ہے تری پرواز لولاکی نہیں ہے یہ مانا اصل شاہینی ہے تیری تری آنکھوں میں بے باکی نہیں ہے!
جوانوں کو مری آہ سحر دے پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے خدایا آرزو میری یہی ہے مرا نور بصیرت عام کر دے