ہیں خواب بھی اور خواب کی تعبیریں بھی
ہیں خواب بھی اور خواب کی تعبیریں بھی ہیں حسن بھی اور حسن کی تنویریں بھی الفاظ نہیں آئنہ خانہ ہیں یہ اے زیست ہیں ان میں تری تصویریں بھی
ہیں خواب بھی اور خواب کی تعبیریں بھی ہیں حسن بھی اور حسن کی تنویریں بھی الفاظ نہیں آئنہ خانہ ہیں یہ اے زیست ہیں ان میں تری تصویریں بھی
سورج پہ جو تھوکو گے تو کیا پاؤ گے صحرا میں جو چیخو گے تو کیا پاؤ گے مہتاب درخشندہ ارے خود نگرو! آئینہ دکھاؤ گے تو کیا پاؤ گے
احساس میں بے تابئ جاں رکھ دی ہے اظہار میں تاثیر بیاں رکھ دی ہے خلاق معانی یہ کرم ہے تیرا الفاظ کے منہ میں بھی زباں رکھ دی ہے
ہر صبح کے چہرے کو نکھارا کس نے ہر شام کے گیسو کو سنوارا کس نے گم نامی کی چادر میں تھی لپٹی کب سے ہر نقش کو فطرت کے ابھارا کس نے
گل زار سے کیا دشت و دمن سے گزرے تلوار سے کیا دار و رسن سے گزرے پھولوں کی للک وہ تھی کہ شبلیؔ ہم لوگ ہر معرکۂ رنج و محن سے گزرے
خود ساختہ افسانے سناتے رہئے فرسودہ تصادم کو دکھاتے رہئے یوں آپ شب و روز بہ فیض جذبات اوہام کو ایمان بناتے رہئے
کس واسطے ساحل پہ کھڑے ہو ششدر ہاتھوں میں لئے تیرہ دلی کے پتھر دعویٰ ہے اگر دیدہ وری کا تم کو امکاں کے سمندر سے نکالو پتھر
رندوں کو بہشت کی خبر دے ساقی اک جام پلا کے مست کر دے ساقی پیمانۂ عمر ہے چھلکنے کے قریب بھر دے ساقی شراب بھر دے ساقی
جنت کا سماں دکھا دیا ہے مجھ کو کونین کا غم بھلا دیا ہے مجھ کو کچھ ہوش نہیں کہ ہوں میں کس عالم میں ساقی نے یہ کیا پلا دیا ہے مجھ کو
عید آئی ہے عیش و نوش کا ساماں کر اک ساقیٔ گلعذار کو مہماں کر قربانی ہے واجب آج اخترؔ تو بھی توبہ کو خدا کے نام پر قرباں کر