کیا میرؔ تجھے جان ہوئی تھی بھاری
کیا میرؔ تجھے جان ہوئی تھی بھاری جو اس بت سنگ دل سے کی تھی یاری بیمار بھلا کوئی بھی ہووے اس کا پرہیز کرے جس سے خدائی ساری
کیا میرؔ تجھے جان ہوئی تھی بھاری جو اس بت سنگ دل سے کی تھی یاری بیمار بھلا کوئی بھی ہووے اس کا پرہیز کرے جس سے خدائی ساری
ہم میرؔ برے اتنے ہیں وہ اتنا خوب متروک جہاں ہم ہیں وہ سب کا محبوب ہم ممکن اسے وجوب کا ہے رتبہ ہے کچھ بھی مناسبت کا باہم اسلوب
ہر صبح مرے سر پہ قیامت گذری ہر شام نئی ایک مصیبت گذری پامال کدورت ہی رہا یاں دن رات یوں خاک میں ملتے مجھ کو مدت گذری
ہر صبح غموں میں شام کی ہے ہم نے خونابہ کشی مدام کی ہے ہم نے یہ مہلت کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر مر مر کے غرض تمام کی ہے ہم نے
ہرچند کہ طاعت میں ہوا ہے تو پیر پر بات مری سن کہ نہیں بے تاثیر تسبیح بہ کف پھرنے سے کیا کام چلے منکے کی طرح دل نہ پھرے جب تک میرؔ
بت خانے سے دل اپنے اٹھائے نہ گئے کعبے کی طرف مزاج لائے نہ گئے طور مسجد کو برہمن کیا جانے یاں مدت عمر میں ہم آئے نہ گئے
کچھ خواب سی ہے میرؔ یہ صحبت داری اٹھ جائیں گے یہ بیٹھے ہوئے یک باری کیا آنکھوں کو کھولا ہے تنک کانوں کو کھول افسانہ ہے پل مارتے مجلس ساری
ہیں قید قفس میں تنگ یوں تو کب کے رہتے تھے گلے ہزار نیچے لب کے اس موسم گل میں میرؔ دیکھیں کیا ہو ہے جان کو بے کلی نہایت اب کے
اب وقت عزیز کو تو یوں کھوؤگے پر سوچ کے غفلت کے تئیں روؤگے کیا خواب گراں پہ میل روز و شب ہے جاگو ٹک میرؔ پھر بہت سوؤگے
اندوہ کھپے عشق کے سارے دل میں اب درد لگا رہنے ہمارے دل میں کچھ حال نہیں رہا ہے دل میں اپنے کیا جانیے وہ کیا ہے تمھارے دل میں