اغلب ہے وہ غم کا بار کھینچے گا میرؔ
اغلب ہے وہ غم کا بار کھینچے گا میرؔ منھ دیکھو کہ شکل یار کھینچے گا میرؔ بیٹھا ہے بنانے اس کی چشم مے گوں نقاش بہت خمار کھینچے گا میرؔ
اغلب ہے وہ غم کا بار کھینچے گا میرؔ منھ دیکھو کہ شکل یار کھینچے گا میرؔ بیٹھا ہے بنانے اس کی چشم مے گوں نقاش بہت خمار کھینچے گا میرؔ
اوقات لڑکپن کے گئے غفلت میں ایام جوانی کے کٹے عشرت میں پیری میں جز افسوس کیا کیا جائے یک بارہ کمی ہی آگئی طاقت میں
تاچند تلف میرؔ حیا سے ہوگا شائستۂ صدستم وفا سے ہوگا کر ترک ملاقات بتاں کعبے چل ان سے ہوگا سو اب خدا سے ہوگا
دل جن کے بجا ہیں ان کو آتی ہے خواب آرام خوش آتا ہے سہاتی ہے خواب میں غم زدہ کیا اپنے دنوں کو روؤں میری تو جہاں شب ہوئی جاتی ہے خواب
کیا تم سے کہوں میرؔ کہاں تک روؤں روؤں تو زمیں سے آسماں تک روؤں جوں ابر جہاں جہاں بھرا ہوں غم سے شائستہ ہوں رونے کا جہاں تک روؤں
جس وقت شروع یہ حکایت ہوگی رنجیدگی یک دگر نہایت ہوگی احوال وفا کا اپنے ہرگز مجھ سے مت پوچھ کہ کہنے میں شکایت ہوگی
اے میرؔ کہاں دل کو لگایا تونے شکل اپنی بگاڑ کر کڑھایا تونے جی میں نہ ترے حال نہ منھ پر کچھ رنگ اپنا یہ حال کیا بنایا تونے
دن فکر دہن میں اس کے جاتا ہے ہمیں کب آپ میں آکے کوئی پاتا ہے ہمیں ہرگز وہ کمر وہم میں گذری نہ کبھو رہ رہ کے یہی خیال آتا ہے ہمیں
ہر روز نیا ایک تماشا دیکھا ہر کوچے میں سو جوان رعنا دیکھا دلی تھی طلسمات کہ ہر جاگہ میرؔ ان آنکھوں سے ہم نے آہ کیا کیا دیکھا
ابرو سے مہ نو نے کہاں خم مارا ہونٹوں سے ترے لعل نے کب دم مارا زلفوں کو تری ہم بھی پریشاں دیکھیں اک جمع کو ان دونوں نے برہم مارا