سال ہا سال اور اک لمحہ
سال ہا سال اور اک لمحہ کوئی بھی تو نہ ان میں بل آیا خود ہی اک در پہ میں نے دستک دی خود ہی لڑکا سا میں نکل آیا
سال ہا سال اور اک لمحہ کوئی بھی تو نہ ان میں بل آیا خود ہی اک در پہ میں نے دستک دی خود ہی لڑکا سا میں نکل آیا
اس کے اور اپنے درمیان میں اب کیا ہے بس روبرو کا رشتہ ہے ہائے وہ رشتہ ہائے خاموشی اب فقط گفتگو کا رشتہ ہے
چاند کی پگھلی ہوئی چاندی میں آؤ کچھ رنگ سخن گھولیں گے تم نہیں بولتی ہو مت بولو ہم بھی اب تم سے نہیں بولیں گے
وہ کسی دن نہ آ سکے پر اسے پاس وعدے کو ہو نبھانے کا ہو بسر انتظار میں ہر دن دوسرا دن ہو اس کے آنے کا
چارہ سازوں کی چارہ سازی سے درد بدنام تو نہیں ہوگا ہاں دوا دو مگر یہ بتلا دو مجھ کو آرام تو نہیں ہوگا
گری ہے برف چمکتے سیاہ بالوں پر بلا کی زردی ہے سرخ و سفید گالوں پر بجھی ہے آگ جو چہرے کی جگمگاتی تھی پڑی ہے اوس جوانی کے ماہ سالوں پر
لب پہ ہنستے ہوئے بچوں کے نظر آئے ہیں دیدۂ تر کے بھی پردے میں تمہیں دیکھا ہے دل کی دھڑکن میں تمہاری ہی صدا آئی ہے نالۂ نیم شبی میں بھی تمہیں پایا ہے
ساز پر مشق کر کے ساز نواز فن میں پاتا ہے پختگی جیسے سیکھ لیتا بشر ہے جینا بھی بڑھتی جاتی ہے زندگی جیسے
دل میں یادوں کے کوئی دیپ جلایا نہ کرے کوئی خوابوں میں مجھے آ کے ستایا نہ کرے حال کی تلخیاں کچھ اور ہی بڑھ جاتی ہیں قصۂ ماضی کوئی اب تو سنایا نہ کرے
کیوں کر بیان حسن ہو کیوں کر غزل کہیں گھائل تری نگاہ کے اے جاں کہاں ہیں ہم وہ دل کہاں جو ڈھونڈھتا پھرتا تھا تیر کو گویا کہ ایک اتری ہوئی سی کماں ہیں ہم