شباب جا چکا لیکن خمار باقی ہے
شباب جا چکا لیکن خمار باقی ہے بھری خزاں میں بھی لطف بہار باقی ہے جوان ہے دل زندہ ابھی تو پہلو میں جہاں میں عشرت لیل و نہار باقی ہے
شباب جا چکا لیکن خمار باقی ہے بھری خزاں میں بھی لطف بہار باقی ہے جوان ہے دل زندہ ابھی تو پہلو میں جہاں میں عشرت لیل و نہار باقی ہے
قصر امیدوں کے کچھ ہم نے بنائے تھے کبھی لمحے عشرت کے بھی کچھ ہم نے چرائے تھے کبھی دل کے تاروں پہ ہے اب یاد کی پیہم ضربیں کھو گئے گیت کہاں ہم نے جو گائے تھے کبھی
حسین کتنی ہے دنیائے رنگ و بو اپنی مگر نہیں ہے اسے احتیاج لفظ و بیاں ہے کارخانے میں مصروف کار گرچہ کوئی مگر نہ پاؤں کی آہٹ نہ ہے صدائے زباں
خوب ہے اک شاعر شیریں سخن خوب ہے فن کار کا بھی علم و فن خوب تر وہ شخص ہے جو لا سکا غم زدوں میں زندگی کی ایک کرن
دل میں یادوں کے دریچے جو کبھی کھلتے ہیں کوئی چپکے سے مرے دل میں چلا آتا ہے ہے وہی شوخی وہی لب پہ تبسم اس کا دل پہ اک بار وہی نشہ سا چھا جاتا ہے
مری شبیہ ہے مسرور و شادماں اب بھی مرا مذاق اڑاتی ہے بے گماں اب بھی وہی ہے دل کشی اب بھی وہی ہے رعنائی شگفتہ لب ہیں تبسم میں گل فشاں اب بھی
زندگی کے روز و شب سے ہو نہیں سکتا شمار سانس کی رفتار سے ہوتی نہیں یہ آشکار صرف دل سینے میں دھڑکے ہی نہیں رقصاں بھی ہو کیا ہوا بے کیف لمبی عمر دی تو نے گزار
پیار کمزور ہو تو ہجر میں مٹ جاتا ہے اور دیوانگئ عشق چمک اٹھتی ہے جس طرح تیز جب آندھی کے ہیں آتے جھونکے بجھتی ہے شمع مگر آگ بھڑک اٹھتی ہے
یہیں سے گزرے ہیں کچھ قافلے بہاروں کے یہیں پہ گونجے ہیں کچھ نغمے مہ پاروں کے مگر ہے آج اسی دل میں ایسا سناٹا چراغ بجھ گئے ہوں جیسے رہ گزاروں کے
پردۂ ماضی پہ صورت جو کوئی ابھری ہے ذہن میں گھوم گئے ہیں مرے افسانے کئی ہوں میں حیران یہ کیوں کر نہ کھلا راز اب تک ہے قریں دل کے بظاہر جو تھے بیگانے کئی