آج
کل کی آرزو میں ہم آج سے الجھ بیٹھے اور پھر سکوں جیسے خواب ہو پریشاں سا آئیے ذرا صاحب اس سے پہلے یوں کر لیں آج کو سنواریں ہم کل کی ہے خبر کس کو
کل کی آرزو میں ہم آج سے الجھ بیٹھے اور پھر سکوں جیسے خواب ہو پریشاں سا آئیے ذرا صاحب اس سے پہلے یوں کر لیں آج کو سنواریں ہم کل کی ہے خبر کس کو
ننھے منے بچوں کو دیکھ کر کبھی اکثر مسکرانے لگتا ہوں جیسے کوئی اپنا سا مدتوں میں مل جائے اور پھر نہ جانے کیوں آنکھ خون روتی ہے اس سہانے بچپن میں خواب جتنے دیکھے تھے یاد آنے لگتے ہیں
ڈرتے ڈرتے کل میں نے اپنے لب جو کھولے تو چھوٹے چھوٹے لفظوں کی گہری گہری باتوں پر جھیل جھیل آنکھوں سے مسکرا رہا تھا وہ جیسے وہ بھی مدت سے منتظر تھا اس پل کا
صابن کی ٹکیا ننھی سی بٹیا پانی میں چھپ چھپ کرتی ہے گپ شپ پانی بہائے چھینٹے اڑائے لو جھاگ نکلا منو کو دیکھو وہ بھاگ نکلا جب منہ کو دھلائے صابن لگائے منو اکیلا سب کو نچائے لاتیں چلائے دھم دھم دھما دھم آنسو بہائے چھم چھم چھما چھم منو کھڑا ہے کرسی کے اوپر صابن کے ڈر سے کرتا ہے تھر ...
جنگل جنگل پڑی پکار چوہے نے چھاپہ اخبار نیلے پیلے صفحے چار تصویریں چالیس ہزار اس پر خبروں کی بھر مار ایک کے اوپر ایک سوار رشتے ناطوں کے جھگڑے طوطے مینا کی تکرار پھول سجائے بلبل نے خوب رہا مینا بازار بندر کی تصویروں پر شہد کی مکھی کی یلغار گیدڑ نے اعلان کیا سارس گیا سمندر ...
اس کا موسیقار ہے خچر اس کا سا زندہ ہے بندر ناچ رہے ہیں میاں مچھندر جاگ اٹھیں سوتے آپا جب گدھے نے راگ الاپا نام ہے اس کا راگ تمنا یعنی جو جی چاہے بننا الو بولا تاتک دھنا چمگادڑ نے کیا سیاپا جب گدھے نے راگ الاپا بھالو بولا چپ کر بھائی ہاتھی دینے لگا دہائی اتنی لمبی تان اڑائی چڑیوں ...
جب دریا میں آگ لگی مچھلی نے اک جست لگائی جا بیٹھی دیوار پر کچھوے کو اڑنا آتا تھا اڑ کے بیٹھا تار پر مینڈک کو آگے جانا تھا وہ تو بھاگا کار پر جب دریا میں آگ لگی تار پہ بلی ناچ رہی تھی کچھوے سے یہ بولی آؤ بادل میں چھپ جائیں کھیلیں آنکھ مچولی مچھلی بیٹھی اونگھ رہی تھی وہ بھی پیچھے ہو ...
کیا خدا تجھ کو بھول جاؤں میں کس لیے تیرے گن گاؤں میں مجھ کو انساں بنا دیا تو نے سیدھا رستہ بتا دیا تو نے پھر سمجھ دی کہ نیک کام کروں کتنا اونچا اٹھا دیا تو نے کیا یہ احسان بھول جاؤں میں کس لیے تیرے گن نہ گاؤں میں چاند سورج جو جگمگاتے ہیں گرمی اور روشنی بہاتے ہیں زندگی کا یہی سہارا ...
میرے وطن کی مٹی سونا اگل رہی ہے سبزے کی یہ حکومت یہ کھیت لہلہاتے پتے ہوا سے چھو کر ایک راگ سا سناتے سوتا ہوا مقدر انسان کا جگاتے پودے نہیں زمیں سے دولت ابل رہی ہے میرے وطن کی مٹی سونا اگل رہی ہے مکا ہے یا زمرد تن کر کھڑے ہوئے ہیں دھانوں کی بالیوں میں ہیرے جڑے ہوئے ہیں بھٹے ہیں جوار ...
آج شب چاند خوش نما نکلا ساری دنیا کا دل ربا نکلا سینگ چھوٹے ہیں دو طرف نکلے خوش نما نازک اور چمکیلے خوش نما تھا نہ چاند ایسا کبھی سب کو سینگوں کی روشنی بھائی نہ بڑھے گا امید ہے پھر وہ نہ چڑھے گا امید ہے پھر وہ کاش منزل کی اس کے رہ پاتا دوستوں کو بھی ساتھ لے جاتا اس فضا سے جو پار ہوتا ...