شاعری

پاگل

تو جو ہمک کر میری گود میں چڑھ جاتی ہے راتوں کو بے موقعہ نیند اڑا دیتی ہے تیری خاطر شعرا کے بازاروں تک میں ہو آتا ہوں پھر بے سمجھی واہ واہ کے آوازے سے گھائل ہو کر اکثر معافی مانگ چکا ہوں اے داد و تحسین کی خواہش ہیروں کا تو کام ہے آنکھیں خیرہ کرنا پر ان ہیروں کی تخلیق میں اور پہچان کے ...

مزید پڑھیے

یہ کہاں جائیں گے

معجزہ تھا عجب آہنی چھنچھناہٹ سے زنجیر خود اپنے قدموں میں آ کر گری بھاری بھرکم دہانے کھلے اور چرخ چوں کی فریاد کے ساتھ پٹری پر ڈبے سرکنے لگے صبح کی دودھیا چھاؤں میں آنکھ ملتے ہوئے سب یہ حیرت زدہ دیکھتے تھے کوئی کھینچنے والا انجن نہ تھا اور ترائی اترتی گئی ان کی رفتار بڑھتی ...

مزید پڑھیے

خرید و فروخت

انہیں بیچنا تو ضروری ہے بازار کے موڑ پر وقفہ وقفہ صدا کیمیا مل گیا کیمیا مل گیا وقفہ وقفہ صدا ان صداؤں کا آہنگ مسجد شوالہ صحیفے صحیفوں کا آہنگ نغمات نغموں کا آہنگ نغمات نغموں کا آہنگ طبل و علم فوج آہنگ پر مارچ کرتی ہوئی انہیں بیچنا تو ضروری ہے ورنہ خیالات نرگس زدہ اپنے ماحول کے ...

مزید پڑھیے

آگ کی پیاس

میں آگ بھی تھا اور پیاسا بھی تو موم تھی اور گنگا جل بھی میں لپٹ لپٹ کر بھڑک بھڑک کر پیاس بجھاتی آنکھوں میں بجھ جاتا تھا وہ آنکھیں سپنے والی سی سپنا جس میں اک بستی تھی بستی کا چھوٹا سا پل تھا سوئے سوئے دریا کے سنگ پیڑوں کا میلوں سایہ تھا پل کے نیچے اکثر گھنٹوں اک چاند پگھلتے دیکھا ...

مزید پڑھیے

روشنی کے بوجھ

ہوا اڑائے ریشم بادل کے پردے چھن چھن کر پیڑوں سے اتریں روشنیاں جیسے اچانک بچوں کو آ جائے ہنسی جنگل تیرہ بخت نہیں چھن چھن کر چھتنار سے برسو روشنیو پودوں کی رگ رگ میں تیرو روشنیو جنگل کے سینے کے کونوں‌‌ کھدروں میں دبے ہوئے اسرار بہت خواب گزیدہ نشے میں سرشار بہت نیند نگر کو تجنے پر ...

مزید پڑھیے

پیار کے تحفے

نہ جانے کیا ملا کیا حسرتیں باقی رہیں دل میں ابھی دنیا سے کیا کچھ اور لینا ہے مجھے تو یہ خبر ہے یہ دہکتی آگ سب کچھ خاک کر دے گی فقط میرا نشاں اٹھتا دھواں چاروں طرف رشتوں پہ میلی راکھ چھڑکاتا یہ تیزابی رگ و پے میں پنپتا زہر مغرورانہ بے زاری نگہ داری کی دیواریں کھڑی کرتی یہ سب اس آگ ...

مزید پڑھیے

ہمالہ

عجیب بیزار شخص ہے وہ اسے عقیدت اذیتوں آزمائشوں سے وہ سر پہ دنیا کا بوجھ ڈالے روایتوں کے لئے حوالے تمام ہمت بکف دیانت کنواں نیا روز کھودتا ہے پھر اس میں گرتا ہے گر کے خود کو نکالنے کی مہم میں دن رات کاٹتا ہے اسے محبت ہے ذات کی گہری کھائیوں سے کمال حیرت ہے اس نے خود سے کبھی نہ ...

مزید پڑھیے

وسعتیں

بادل کے پردوں سے تہہ دار کہروں میں ڈوبا ہوا نور لپٹا ہوا صبح کی اولیں دودھیا چھاؤں میں اک جھلک آسمانوں کی وسعت کی رم جھم ٹپکتی ہوئی جھیل کی پر سکوں سطح پر تیرتی یوں لگا جیسے میری پہنچ میں یہیں آ گئی سطح جاں سے اٹھی یہ دعا اس حسیں لمحۂ سحر‌ آگیں میں خوشیوں سے بھر دے مرے دل کی ...

مزید پڑھیے

اداسی

ابھی جنگ جاری ہے جلنے لگیں بستیاں اٹھ رہا ہے دھواں ایک خوں ریز دریا درختوں کو سیراب کرتا ہے جنگل مئے ناب سے کتنا مسرور ہے جنگل جاری کہاں ہے وہ دیکھو پہاڑوں کے دروں میں بھگدڑ مچی ہے بکھرتی ہوئی فوج کے سورما پیٹھ پر زخم کھانے کے شیدا انہیں کی ہے میراث ساری اداسی جو بستی کے کھیتوں ...

مزید پڑھیے

نمائش

رات میں بھی گیا اک نمائش تھی عمدہ تصاویر کی شہر کے چیدہ چیدہ معزز خواتین و حضرات چہروں پہ موزوں ملاوٹ نفاست کی سنجیدگی کی فنون لطیفہ کے ادراک کی اپنی موجودگی سے یقیں دوسروں کو دلاتے ہوئے کتنے با ذوق ہیں کاش خود بھی یقیں کر سکیں رات اچھی نمائش تھی میں بھی نمائش میں تصویر تھا

مزید پڑھیے
صفحہ 940 سے 960