شاعری

ریستوراں

ریستوراں میں سجے ہوئے ہیں کیسے کیسے چہرے قبروں کے کتبوں پر جیسے مسلے مسلے سہرے اک صاحب جو سوچ رہے ہیں پچھلے ایک پہر سے یوں لگتے ہیں جیسے بچہ روٹھ آیا ہو گھر سے کافی کی پیالی کو لبوں تک لائیں تو کیسے لائیں بیرے تک سے آنکھ ملا کر بات جو نہ کر پائیں کتنی سنجیدہ بیٹھی ہے یہ احباب کی ...

مزید پڑھیے

قانون قدرت

گلیوں کی شمعیں بجھ گئیں اور شہر سونا ہو گیا بجلی کا کھمبا تھام کر بانکا سپاہی سو گیا تاریکیوں کی دیویاں کرنے لگیں سرگوشیاں اک دھیمی دھیمی تان میں گانے لگیں خاموشیاں مشرق کے پربت سے ورے ابھریں گھٹائیں یک بیک انگڑائیاں لینے لگیں بے خود ہوائیں یک بیک تارے نگلتی بدلیاں چاروں طرف ...

مزید پڑھیے

ایک یاد کا روزن

میری یادوں میں سے ایک یاد مجھے تا دم مرگ نہیں بھولے گی میری اس یاد کا روزن دریچہ ہے جس میں سے مجھے کتنے گزرے ہوئے پل صاف نظر آتے ہیں کچی مٹی کو جو تختی پہ چلاؤں تو یہ دھرتی جیسے اپنی خوشبو میں مجھے نہلائے روشنائی میں قلم کو جو ڈوبو دوں تو مجھے روز ازل یاد آئے لفظ لکھوں سر ...

مزید پڑھیے

ازلی مسرتوں کی ازلی منزل

مٹیالے مٹیالے بادل گھوم رہے ہیں میدانوں کے پھیلاؤ پر دریا کی دیوانی موجیں ہمک ہمک کر ہنس دیتی ہیں اک ناؤ پر سامنے اودے سے پربت کی ابر آلودہ چوٹی پر ہے ایک شوالا جس کے عکس کی تابانی سے پھیل رہا ہے چاروں جانب ایک اجالا جھلمل کرتی ایک مشعل سے محرابوں کے گہرے سائے رقصیدہ ہیں ہر سو ...

مزید پڑھیے

وقفہ

راستہ نہیں ملتا منجمد اندھیرا ہے پھر بھی با وقار انساں اس یقیں پہ زندہ ہے برف کے پگھلنے میں پو پھٹے کا وقفہ ہے اس کے بعد سورج کو کون روک سکتا ہے

مزید پڑھیے

درانتی

چمک رہے ہیں درانتی کے تیز دندانے خمیدہ ہل کی یہ الھڑ جوان نور نظر سنہری فصل میں جس وقت غوطہ زن ہوگی تو ایک گیت چھڑے گا مسلسل اور دراز ندیمؔ ازل سے ہے تخلیق کا یہی انداز ستارے بوئے گئے آفتاب کاٹے گئے ہم آفتاب ضمیر جہاں میں بوئیں گے تو ایک روز عظیم انقلاب کاٹیں گے کوئی بتائے زمیں کے ...

مزید پڑھیے

ایک نظم

چھٹپٹے کے غرفے میں لمحے اب بھی ملتے ہیں صبح کے دھندلکے میں پھول اب بھی کھلتے ہیں اب بھی کوہساروں پر سر کشیدہ ہریالی پتھروں کی دیواریں توڑ کر نکلتی ہے اب بھی آب زاروں پر کشتیوں کی صورت میں زیست کی توانائی زاویے بدلتی ہے اب بھی گھاس کے میداں شبنمی ستاروں سے میرے خاکداں پر ...

مزید پڑھیے

ایک درخواست

زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پہ بند ہیں دیکھنا حد نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے سوچنا اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے کیوں بھی کہنا جرم ہے کیسے بھی کہنا جرم ہے سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے مگر زندہ ...

مزید پڑھیے

شرارت

اک بکس کہیں سے لائیں گے روغن سے اسے چمکائیں گے اک ڈبے میں باسی پھلکوں کا اک انبار لگائیں گے لڑکوں سے کہیں گے آؤ گرامو فون فون تمہیں سنوائیں گے صندوق اور ڈبہ کھول کے پھر ناچیں گے شور مچائیں گے آج اپنے ہر ہمجولی کو ہم الو خوب بنائیں گے امجد چونی اور تلسی کو دعوت پہ بلایا جائے گا اک ...

مزید پڑھیے

بہت سے بچوں کا گھر

ابا تو چلے گئے ہیں دفتر امی کو بخار آ رہا ہے چھمن تو گیا ہوا ہے بازار جمن کھانا پکا رہا ہے زیبن کو اسی کا تازہ بچہ پکا گانا سنا رہا ہے امجد صوفے پر کوئلے سے کالا طوطا بنا رہا ہے اسلم دادی کی لے کے تصویر اس کی مونچھیں اگا رہا ہے توقیر بلیڈ کے کمالات قالین پہ آزما رہا ہے چھ سات ...

مزید پڑھیے
صفحہ 898 سے 960