گناہ و ثواب
مہرباں رات نے اپنی آغوش میں کتنے ترسے ہوئے بے گناہوں کو بھینچا دلاسا دیا اور انہیں اس طرح کے گناہوں کی ترغیب دی جس طرح کے گناہوں سے میلاد آدم ہوا تھا
مہرباں رات نے اپنی آغوش میں کتنے ترسے ہوئے بے گناہوں کو بھینچا دلاسا دیا اور انہیں اس طرح کے گناہوں کی ترغیب دی جس طرح کے گناہوں سے میلاد آدم ہوا تھا
اپنے ماضی کے گھنے جنگل سے کون نکلے گا! کہاں نکلے گا بے کراں رات ستارے نابود چاند ابھرا ہے؟ کہاں ابھرا ہے؟ اک فسانہ ہے تجلی کی نمود کتنے گنجان ہیں اشجار بلند کتنا موہوم ہے آدم کا وجود مضمحل چال قدم بوجھل سے اپنے ماضی کے گھنے جنگل سے مجھ کو سوجھی ہے نئی راہ فرار آہن و سنگ و شرر ...
یوم مزاجی یاروں کی سب میری دیکھی بھالی رات کی تاریکی میں ان کی انگارہ سی آنکھیں پوری دن کو اندھی اور ادھوری خالی دن کے یہ درویش مگر راتوں کے والی اپنے محسن کو جب دن کے آئینے میں دیکھیں فرط ادب سے سمٹیں سکڑیں جھک جائیں اور کچلے مسئلے روندے لہجے میں پوچھیں کیسا ہے مزاج عالی رات کو ...
سر برآوردہ صنوبر کی گھنی شاخوں میں چاند بلور کی ٹوٹی ہوئی چوڑی کی طرح اٹکا ہے دامن کوہ کی اک بستی میں ٹمٹماتے ہیں مزاروں پہ چراغ آسماں سرمئی فرغل میں ستارے ٹانکے سمٹا جاتا ہے جھکا آتا ہے وقت بے زار نظر آتا ہے سر برآوردہ صنوبر کی گھنی شاخوں میں صبح کی نقرئی تنویر رچی جاتی ہے دامن ...
دوستو تم تو کندھوں سے اوپر نظر ہی نہیں آ رہے ہو چلو اپنے چہرے ندامت کی المایوں سے نکالو انہیں جھاڑ کر گردنوں پر رکھو تم ادھورے نہیں ہو تو پورے دکھائی تو دو
رات کی اڑتی ہوئی راکھ سے بوجھل ہے نسیم یوں عصا ٹیک کے چلتی ہے کہ رحم آتا ہے سانس لیتی ہے درختوں کا سہارا لے کر اور جب اس کے لبادے سے لپٹ کر کوئی پتہ گرتا ہے تو پتھر سا لڑھک جاتا ہے شاخیں ہاتھوں میں لیے کتنی ادھوری کلیاں مانگتی ہیں فقط اک نرم سی جنبش کی دعا ایسا چپ چاپ ہے سنولائی ...
مرے آقا کو گلہ ہے کہ مری حق گوئی راز کیوں کھولتی اور میں پوچھتا ہوں تیری سیاست فن میں زہر کیوں گھولتی ہے میں وہ موتی نہ بنوں گا جسے ساحل کی ہوا رات دن رولتی ہے یوں بھی ہوتا کہ آندھی کے مقابل چڑیا اپنے پر تولتی ہے اک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر بوند بھی بولتی ہے
جنگل جنگل آگ لگی ہے بستی بستی ویراں ہے کھیتی کھیتی راکھ اڑتی ہے دنیا ہے کہ بیاباں ہے سناٹے کی ہیبت نے سانسوں میں پکاریں بھر دی ہیں ذہنوں میں مبہوت خیالوں نے تلواریں بھر دی ہیں قدم قدم پر جھلسے جھلسے خواب پڑے ہیں راہوں میں صبح کو جیسے کالے کالے دئیے عبادت گاہوں میں ایک اک سنگ ...
سایہ جب بھی ڈھلتا ہے کچھ نہ کچھ بدلتا ہے لمحہ ایک لرزش ہے اک بسیط جنبش ہے جیسے ہونٹ ملتے ہیں جیسے پھول کھلتے ہیں جیسے نور بڑھتا ہے جیسے نشہ چڑھتا ہے
رات دن سلسلۂ عمر رواں کی کڑیاں کل جہاں روح جھلس جاتی تھی اپنے سائے سے بھی آنچ آتی تھی آج اسی دشت پہ ساون کی لگی ہیں جھڑیاں رات دن سلسلۂ عمر رواں کی کڑیاں شب کو جو وادیاں سنسان رہیں صبح یوں اوس سے آراستہ تھیں ہر طرف موتیوں کی جیسے تنی ہوئی لڑیاں رات دن سلسلۂ عمر رواں کی کڑیاں توڑ کر ...