شاعری

ایک عمر ہوتی ہے

ایک عمر ہوتی ہے جس میں کوئی لڑکا ہو یا وہ کوئی لڑکی ہو سوچتے ہیں دونوں ہی ہم ہی حرف اول ہیں اس جہان کہنہ کو اپنی فکر نو سے ہم اک لگن کی لو سے ہم جس طرح کا چاہیں گے ویسا ہی بنا لیں گے پتھروں کو مر مر کے پیکروں میں ڈھالیں گے ایک عمر ہوتی ہے جس میں کوئی لڑکا ہو یا کوئی لڑکی ہو سوچتے ہیں ...

مزید پڑھیے

زندگی

نہ میں مرا ہوں نہ تم مری ہو ملے تھے جب پہلی بار کتنے کئے تھے وعدے کھائی کتنی تھی ہم نے قسمیں نہیں جئیں گے جو مل نہ پائے مگر نہ ذہنوں میں تھیں ہمارے وہ مردہ رسمیں جو زندہ رکھتی ہیں قید کر کے روایتوں کے اندھے پتھریلے محبسوں میں

مزید پڑھیے

میرا وطن

گوتم ہوئے کہ نانک کاکی ہوئے کہ چشتی لودی ہوئے کہ تغلق سید ہوئے کہ خلجی آ آ کے جس میں ان کی ملتی گئی ہے مٹی نا اتفاقیوں نے جس پر گرائی بجلی میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے اونچے پہاڑ جس کے تھے راستوں کو روکے دشمن کو جس کے دریا لاتے تھے پر ڈبو کے علم و ہنر کی دولت جس نے لٹائی سو ...

مزید پڑھیے

برسات اور شاعر

تھا درختوں کو ابھی عالم حیرت ایسا جیسے دلبر سے یکایک کوئی ہو جائے دو چار ڈالیاں ہلنے لگیں تیز ہوائیں جو چلیں پتے پتے میں نظر آنے لگی تازہ بہار سنسناہٹ ہوئی جھونکوں سے ہوا کے ایسی چھٹ گئی ہوں کہیں لاکھوں میں ہوائی یکبار رعد گرجا ارے وہ دیکھنا بجلی چمکی ہلکی ہلکی سی وہ پڑنے لگی ...

مزید پڑھیے

تنہائی

مجھ سا تنہا نہیں دنیا میں خدایا کوئی میں نہ اپنا ہوں کسی کا بھی نہ میرا کوئی کیا ملا مجھ کو چہل سالہ رفاقت کر کے اب کسی پر نہ کرے آہ بھروسا کوئی تابش ہجر نے دل کی یہ بنا دی صورت جیسے ہو دھوپ میں تپتا ہوا صحرا کوئی آتش شوق کی اٹھی ہیں کچھ ایسی لہریں جس طرح آگ کا بہتا ہوا دریا کوئی ایک ...

مزید پڑھیے

ایک شاعر کا خواب

کہیں اک شب جو اپنے بستر راحت پہ جا لیٹا رہا ہے چین تھوڑی دیر آنکھیں لگ گئیں آخر بلا کا خواب راحت میں مجھے منظر نظر آیا قلم میں یہ کہاں طاقت کہ اس کو کر سکے ظاہر نظر آیا مجھے میدان جس میں ہو کا عالم تھا نہ اپنا ہم سفر کوئی نہ اپنا کوئی ہم دم تھا درختوں کے نشاں کچھ تھے مگر سیل حوادث ...

مزید پڑھیے

فن

ایک رقاصہ تھی کس کس سے اشارے کرتی آنکھیں پتھرائی اداؤں میں توازن نہ رہا ڈگمگائی تو سب اطراف سے آواز آئی ''فن کے اس اوج پہ اک تیرے سوا کون گیا'' فرش مرمر پہ گری گر کے اٹھی اٹھ کے جھکی خشک ہونٹوں پہ زباں پھیر کے پانی مانگا اوک اٹھائی تو تماشائی سنبھل کر بولے رقص کا یہ بھی اک انداز ہے ...

مزید پڑھیے

پتھر

ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فن کار ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لا دوں میں ترے سامنے انبار لگا دوں لیکن کون سے رنگ کا پتھر ترے کام آئے گا سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیلا پتھر جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ...

مزید پڑھیے

محفل شب

کتنی ویران ہے یہ محفل شب نہ ستارے نہ چراغ اک گھنی دھند ہے گردوں پہ محیط چاند ہے چاند کا داغ پھیلتے جاتے ہیں منظر کے خطوط بجھتا جاتا ہے دماغ راستے گھل گئے تاریکی میں توڑ کر زعم سفر کون حد نظر دیکھ سکے مٹ گئی حد نظر سیکڑوں منزلیں طے کر تو چکے لیکن اب جائیں کدھر آسماں ہے نہ زمیں ہے ...

مزید پڑھیے

بیسویں صدی کا انسان

مجھے سمیٹو میں ریزہ ریزہ بکھر رہا ہوں نہ جانے میں بڑھ رہا ہوں یا اپنے ہی غبار سفر میں ہر پل اتر رہا ہوں نہ جانے میں جی رہا ہوں یا اپنے ہی تراشے ہوئے نئے راستوں کی تنہائیوں میں ہر لحظہ مر رہا ہوں میں ایک پتھر سہی مگر ہر سوال کا بازگشت بن کر جواب دوں گا مجھے پکارو مجھے صدا دو میں ایک ...

مزید پڑھیے
صفحہ 895 سے 960