شاعری

بے چارگی

ہزار بار ہوا یوں کہ جب امید گئی گلوں سے رابطہ ٹوٹا نہ خار اپنے رہے گماں گزرنے لگا ہم کھڑے ہیں صحرا میں فریب کھانے کی جا رہ گئی، نہ سپنے رہے نظر اٹھا کے کبھی دیکھ لیتے تھے اوپر نہ جانے کون سے اعمال کی سزا ہے کہ آج یہ واہمہ بھی گیا سر پہ آسماں ہے کوئی

مزید پڑھیے

ایک لڑکا

دیار شرق کی آبادیوں کے اونچے ٹیلوں پر کبھی آموں کے باغوں میں کبھی کھیتوں کی مینڈوں پر کبھی جھیلوں کے پانی میں کبھی بستی کی گلیوں میں کبھی کچھ نیم عریاں کم سنوں کی رنگ رلیوں میں سحر دم جھٹپٹے کے وقت راتوں کے اندھیرے میں کبھی میلوں میں ناٹک ٹولیوں میں ان کے ڈیرے میں تعاقب میں کبھی ...

مزید پڑھیے

ایک احساس

غنودگی سی رہی طاری عمر بھر ہم پر یہ آرزو ہی رہی تھوڑی دیر سو لیتے خلش ملی ہے مجھے اور کچھ نہیں اب تک ترے خیال سے اے کاش درد دھو لیتے مرے عزیزو مرے دوستو گواہ رہو برہ کی رات کٹی آمد سحر نہ ہوئی شکستہ پا ہی سہی ہم سفر رہا پھر بھی امید ٹوٹی کئی بار منتشر نہ ہوئی ہیولیٰ کیسے بدلتا ہے ...

مزید پڑھیے

بلاوا

نگر نگر کے دیس دیس کے پربت ٹیلے اور بیاباں ڈھونڈ رہے ہیں اب تک مجھ کو کھیل رہے ہیں میرے ارماں میرے سپنے میرے آنسو ان کی چھلنی چھاؤں میں جیسے دھول میں بیٹھے کھیل رہے ہوں بالک باپ سے روٹھے روٹھے! دن کے اجالے سانجھ کی لالی رات کے اندھیارے سے کوئی مجھ کو آوازیں دیتا ہے آؤ آؤ آؤ ...

مزید پڑھیے

اتفاق

دیار غیر میں کوئی جہاں نہ اپنا ہو شدید کرب کی گھڑیاں گزار چکنے پر کچھ اتفاق ہو ایسا کہ ایک شام کہیں کسی اک ایسی جگہ سے ہو یونہی میرا گزر جہاں ہجوم گریزاں میں تم نظر آ جاؤ اور ایک ایک کو حیرت سے دیکھتا رہ جائے!

مزید پڑھیے

محرومی

تو بھی تقدیر نہیں درد بھی پایندہ نہیں تجھ سے وابستہ وہ اک عہد وہ پیمان وفا رات کے آخری آنسو کی طرح ڈوب گیا خواب انگیز نگاہیں وہ لب درد فریب اک فسانہ ہے جو کچھ یاد رہا کچھ نہ رہا میرے دامن میں نہ کلیاں ہیں نہ کانٹے نہ غبار شام کے سائے میں واماندہ سحر بیٹھ گئی کارواں لوٹ گیا مل نہ ...

مزید پڑھیے

اعتماد

بولی خود سر ہوا ایک ذرہ ہے تو یوں اڑا دوں گی میں، موج دریا بڑھی بولی میرے لیے ایک تنکا ہے تو یوں بہا دوں گی میں، آتش تند کی اک لپٹ نے کہا میں جلا ڈالوں گی اور زمیں نے کہا میں نگل جاؤں گی میں نے چہرے سے اپنے الٹ دی نقاب اور ہنس کر کہا، میں سلیمان ہوں ابن آدم ہوں میں یعنی انسان ہوں

مزید پڑھیے

مسجد

دور برگد کی گھنی چھاؤں میں خاموش و ملول جس جگہ رات کے تاریک کفن کے نیچے ماضی و حال گنہ گار نمازی کی طرح اپنے اعمال پہ رو لیتے ہیں چپکے چپکے ایک ویران سی مسجد کا شکستہ سا کلس پاس بہتی ہوئی ندی کو تکا کرتا ہے اور ٹوٹی ہوئی دیوار پہ چنڈول کبھی گیت پھیکا سا کوئی چھیڑ دیا کرتا ہے گرد ...

مزید پڑھیے

بے تعلقی

شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے یہ وقت رواں جو کبھی سنگ گراں بن کے مرے سر پہ گرا راہ میں آیا کبھی میری ہمالہ بن کر جو کبھی عقدہ بنا ایسا کہ حل ہی نہ ہوا اشک بن کر مری آنکھوں سے کبھی ٹپکا ہے جو کبھی خون جگر بن کے مژہ پر آیا آج بے واسطہ یوں گزرا چلا جاتا ہے جیسے میں کشمکش زیست میں شامل ہی ...

مزید پڑھیے

تبدیلی

اس بھرے شہر میں کوئی ایسا نہیں جو مجھے راہ چلتے کو پہچان لے اور آواز دے او بے او سرپھرے دونوں اک دوسرے سے لپٹ کر وہیں گرد و پیش اور ماحول کو بھول کر گالیاں دیں ہنسیں ہاتھاپائی کریں پاس کے پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ کر گھنٹوں اک دوسرے کی سنیں اور کہیں اور اس نیک روحوں کے بازار میں میری ...

مزید پڑھیے
صفحہ 879 سے 960