شاعری

میری شاعری

زندگی کی سبھی راہوں سے گزرتا ہوں ندیم جائزہ لیتا ہوں ہر موڑ پہ شاعر کا دماغ ہر بدلتے ہوئے منظر پہ نظر رکھتا ہوں اور تاریک سی راتوں میں جلاتا ہوں چراغ زندگی کی سبھی راہوں سے گزرتا ہوں ندیم جھلملاتے ہوئے آنچل میں سکوں ڈھونڈ چکا اک تبسم کے لئے ایک اشارے کے لئے اپنے جذبات میں انداز ...

مزید پڑھیے

شاعر

آج پھر سنولا رہا ہے عارض روئے حیات موت کے قانون پر ہے زندگی کا گرم ہاتھ جھلملاتا جا رہا ہے تند آندھی میں چراغ مل رہا ہے خون کے قطروں سے منزل کا سراغ آ رہا ہے فاقہ کش مزدور کے چہرے پہ رنگ کھردرے ہاتھوں سے اب ٹکرا رہے ہیں جام و سنگ چھٹ رہی ہے نبض ہستی آ رہا ہے انقلاب اٹھ رہا ہے آج ...

مزید پڑھیے

خط راہ گزار

سلسلے خواب کے گمنام جزیروں کی طرح سینۂ آب پہ ہیں رقص کناں کون سمجھے کہ یہ اندیشۂ فردا کی فسوں کاری ہے ماہ و خورشید نے پھینکے ہیں کئی جال ادھر تیرگی گیسوئے شب تار کی زنجیر لیے میرے خوابوں کو جکڑنے کے لیے آئی ہے یہ طلسم سحر و شام بھلا کیا جانے کتنے دل خون ہیں انگشت حنائی کے لیے کتنے ...

مزید پڑھیے

روایات کی تخلیق

میرے نغمے تو روایات کے پابند نہیں تو نے شاید یہی سمجھا تھا ندیم تو نے سمجھا تھا کہ شبنم کی خنک تابی سے میں ترا رنگ محل اور سجا ہی دوں گا تو نے سمجھا تھا کہ پیپل کے گھنے سائے میں اپنے کالج کے ہی رومان سناؤں گا تجھے ایک رنگین سی تتلی کے پروں کے قصے کچھ سحر کار نگاہوں کے بیاں کچھ جواں ...

مزید پڑھیے

نیا ادب

ہاں تو میں آپ سے کہتا تھا جناب زندگی جبر کی پابند نہیں رہ سکتی اور ندی اسی دھارے پہ نہیں بہہ سکتی جس میں ماضی کی چتاؤں کے سوا جس میں مرگھٹ کی ہواؤں کے سوا اور تو کچھ بھی نہیں کچھ بھی نہیں ہے شاید آپ بیکار مری بات پہ جھنجھلاتے ہیں کون کہتا ہے کہ ماضی کو برا کہتا ہوں میں کہوں یہ کسی ...

مزید پڑھیے

آوارہ

خوب ہنس لو مری آوارہ مزاجی پر تم میں نے برسوں یوں ہی کھائے ہیں محبت کے فریب اب نہ احساس تقدس نہ روایت کی فکر اب اجالوں میں نہ کھاؤں گی میں ظلمت کے فریب خوب ہنس لو کہ مرے حال پہ سب ہنستے ہیں میری آنکھوں سے کسی نے بھی نہ آنسو پونچھے مجھ کو ہمدرد نگاہوں کی ضرورت بھی نہیں اور شعلوں کو ...

مزید پڑھیے

جمود

یہ شام شام اودھ نہیں ہے جسے تمہاری سیاہ زلفیں چھپا سکیں گی یہ صبح صبح طرب نہیں ہے یہ اک دھندلکا ہے ایک کہرا ابھرتے سورج کی گرم کرنوں کے خواب سیال ہو گئے ہیں زمین اپنی رگوں کی گرمی لٹا چکی ہے حیات آنسو بہا رہی ہے ہر ایک برگ و ثمر پہ موتی جھلک رہے ہیں تم اپنے آنچل پہ بزم پرویں سجا چکی ...

مزید پڑھیے

دن گزرتے جا رہے ہیں

ہم بھی مرتے جا رہے ہیں بعد تیرے ہم دکھوں کے آنسوؤں کے باد و باراں میں نہتے دل کے ساتھ بے پناہی راستوں پر پاؤں دھرتے جا رہے ہیں دن گزرتے جا رہے ہیں لمحہ لمحہ خوف کے مارے ہوئے رات دن کے وسوسوں میں کیا خبر کیا بیت جائے اگلے پل اس سفر میں ذہن سوچوں کے تھپیڑوں سے ہے شل اور ہم خود ہی سے ...

مزید پڑھیے

جگنو

کنارے جھیل کے پھرتا ہے جگنو کبھی اڑتا کبھی گرتا ہے جگنو ہوا کی گود میں اک روشنی ہے کہ ننھی شمع کوئی اڑ رہی ہے ستارہ سا چمکتا ہے فضا میں شرارہ اڑتا پھرتا ہے ہوا میں کوئی مہتاب سی چھوٹی ہے گویا ستارے کی کرن ٹوٹی ہے گویا اندھیرے میں سنہری تیتری ہے کہ سونے کی کوئی ننھی پری ہے ہری ...

مزید پڑھیے

دل و دماغ کو رو لوں گا آہ کر لوں گا

دل و دماغ کو رو لوں گا آہ کر لوں گا تمہارے عشق میں سب کچھ تباہ کر لوں گا اگر مجھے نہ ملیں تم تمہارے سر کی قسم میں اپنی ساری جوانی تباہ کر لوں گا مجھے جو دیر و حرم میں کہیں جگہ نہ ملی ترے خیال ہی کو سجدہ گاہ کر لوں گا جو تم سے کر دیا محروم آسماں نے مجھے میں اپنی زندگی صرف گناہ کر لوں ...

مزید پڑھیے
صفحہ 865 سے 960