شاعری

میرا سفر

''ہمچو سبزہ بارہا روئیدہ ایم'' (رومیؔ) پھر اک دن ایسا آئے گا آنکھوں کے دئیے بجھ جائیں گے ہاتھوں کے کنول کمھلائیں گے اور برگ زباں سے نطق و صدا کی ہر تتلی اڑ جائے گی اک کالے سمندر کی تہ میں کلیوں کی طرح سے کھلتی ہوئی پھولوں کی طرح سے ہنستی ہوئی ساری شکلیں کھو جائیں گی خوں کی گردش دل ...

مزید پڑھیے

دو چراغ

تیرگی کے سیاہ غاروں سے شہپروں کی صدائیں آتی ہیں لے کے جھونکوں کی تیز تلواریں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں برف نے جن پہ دھار رکھی ہے ایک میلی دکان تیرہ و تار اک چراغ اور ایک دوشیزہ یہ بجھی سی ہے وہ اداس سا ہے دونوں جاڑوں کی لمبی راتوں میں تیرگی اور ہوا سے لڑتے ہیں تیرگی اٹھ رہی ہے ...

مزید پڑھیے

حرف آخر

یہ آدمی کی گزر گاہ شاہراہ حیات ہزاروں سال کا بار گراں اٹھائے ہوئے جبیں پہ کاتب تقدیر کی جلی تحریر گلے سے سیکڑوں نقش قدم لگائے ہوئے گزرتے وقت کے گرد و غبار کے نیچے حسین جسم کی تابندگی چھپائے ہوئے گزشتہ دور کی تہذیب کی منازل کو جوان ماں کی طرح گود میں سلائے ہوئے یہ آدمی کی گزر گاہ ...

مزید پڑھیے

نوالا

ماں ہے ریشم کے کارخانے میں باپ مصروف سوتی مل میں ہے کوکھ سے ماں کی جب سے نکلا ہے بچہ کھولی کے کالے دل میں ہے جب یہاں سے نکل کے جائے گا کارخانوں کے کام آئے گا اپنے مجبور پیٹ کی خاطر بھوک سرمائے کی بڑھائے گا ہاتھ سونے کے پھول اگلیں گے جسم چاندی کا دھن لٹائے گا کھڑکیاں ہوں گی بینک کی ...

مزید پڑھیے

ہاتھوں کا ترانہ

ان ہاتھوں کی تعظیم کرو ان ہاتھوں کی تکریم کرو دنیا کے چلانے والے ہیں ان ہاتھوں کو تسلیم کرو تاریخ کے اور مشینوں کے پہیوں کی روانی ان سے ہے تہذیب کی اور تمدن کی بھرپور جوانی ان سے ہے دنیا کا فسانہ ان سے ہے، انساں کی کہانی ان سے ہے ان ہاتھوں کی تعظیم کرو صدیوں سے گزر کر آئے ہیں، یہ ...

مزید پڑھیے

لہو پکارتا ہے

لہو پکارتا ہے ہر طرف پکارتا ہے سحر ہو، شام ہو، خاموشی ہو کہ ہنگامہ جلوس غم ہو کہ بزم نشاط آرائی لہو پکارتا ہے لہو پکارتا ہے جیسے خشک صحرا میں پکارا کرتے تھے پیغمبران اسرائیل زمیں کے سینے سے اور آستین قاتل سے گلوئے کشتہ سے بے حس زبان خنجر سے صدا لپکتی ہے ہر سمت حرف حق کی طرح مگر ...

مزید پڑھیے

میرے خواب

اے مرے حسیں خوابو تم کہاں سے آئے ہو کس افق سے ابھرے ہو کس شفق سے نکھرے ہو کن گلوں کی صحبت میں تم نے تربیت پائی کس جہاں سے لائے ہو یہ جمال و رعنائی جیل تو بھیانک ہے اس ذلیل دنیا میں حسن کا گزر کیسا رنگ ہے نہ نکہت ہے نور ہے نہ جلوہ ہے جبر کی حکومت ہے تم کہاں سے آئے ہو اے مرے حسیں ...

مزید پڑھیے

تمہارا شہر

تمہارا شہر تمہارے بدن کی خوشبو سے مہک رہا تھا، ہر اک بام تم سے روشن تھا ہوا تمہاری طرح ہر روش پہ چلتی تھی تمہارے ہونٹوں سے ہنستی تھیں نرم لب کلیاں عطا ہوئی تھی سحر کو تمہاری سیم تنی ملی تھی شام و شفق کو تمہاری گل بدنی تمہارا نام تصور بھی تھا، تخیل بھی یقیں بھی، شوق بھی، امید بھی، ...

مزید پڑھیے

بہت قریب ہو تم

بہت قریب ہو تم پھر بھی مجھ سے کتنی دور کہ دل کہیں ہے نظر ہے کہیں کہیں تم ہو وہ جس کو پی نہ سکی میری شعلہ آشامی وہ کوزۂ شکر و جام انگبیں تم ہو مرے مزاج میں آشفتگی صبا کی ہے ملی کلی کی ادا گل کی تمکنت تم کو صبا کی گود میں پھر بھی صبا سے بیگانہ تمام حسن و حقیقت تمام افسانہ وفا بھی جس ...

مزید پڑھیے

تاشقند کی شام

مناؤ جشن محبت کہ خوں کی بو نہ رہی برس کے کھل گئے بارود کے سیہ بادل بجھی بجھی سی ہے جنگوں کی آخری بجلی مہک رہی ہے گلابوں سے تاشقند کی شام جگاؤ گیسوئے جاناں کی عنبریں راتیں جلاؤ ساعد سیمیں کی شمع کافوری طویل بوسوں کے گل رنگ جام چھلکاؤ یہ سرخ جام ہے خوبان تاشقند کے نام یہ سبز جام ہے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 855 سے 960