شاعری

لا پرواہی

پلکوں پر سپنوں کی کرچی بچی رہ گئی بس اتنی سی لا پرواہی کیا ہونی تھی اندراسن تک ڈول اٹھا فرمانوں کے ڈھیر لگ گئے پھانسی سولی جنم قید کے چرچے گھر گھر ہونے لگے تخت سے تختے تک کا نقشہ پھر سے دیکھا جانے لگا

مزید پڑھیے

اندھیرے میں سوچنے کی مشق

اندھیرا تھا اندھیرا لال قلعہ جس میں اک کالا ہیولیٰ تھا ہزاروں قمقموں کی روشنی تھی دائرہ در دائرہ پھر بھی اندھیرا تھا نگل ڈالا تھا جس نے لال قلعے کو گھنا گاڑھا اندھیرا تھا ہزاروں قمقموں کی روشنی میں پاس کی چیزیں ہی پس منظر اندھیرا جن کا پس منظر سڑک پر ہر سڑک پر روشنی کی دوڑ جاری ...

مزید پڑھیے

معمول

شام چھت سے گھر میں اتری رات بن کر ایک اک کمرے میں پھیلی وقت کو اپنی کلائی سے اتارا اور ٹیبل پر سجا کر میں نے آزادی کا لمبا سانس کھینچا یاد اور خوابوں کی پتواریں سنبھالیں کشتئ احساس کو باریک اور بد رنگ لہروں میں اتارا صبح تک اس کشتئ احساس پر کر کے لے آؤں گا سورج کو سوار اور پھر ...

مزید پڑھیے

اے ازل سے....

اے ازل سے تا ابد صاحب فروغ اے جمال بے حجاب اون کہرے سے دھوپ سے زر بفت اور ریشم چاندنی سے بارہا لینے کو میں نے لے لیا لفظ سر رنگوں کا پیراہن مگر پھر بھی نہ مجھ سے سل سکا تو تعین کی حدوں میں کیوں نہ مجھ کو مل سکا

مزید پڑھیے

تم اور ہم

تم بدن کی سطح کے تیراک بننا چاہتے تھے تم تھے نظاروں کے ساحل پر تماشہ بین اور شوقین تم پہنچنا چاہتے تھے پیرہن کے پار جلد تک محدود تھا ذوق جمال گوشت تھا مقصود پرواز خیال انکشاف جسم تھا افکار عالی کا کمال دامن و بند قبا انگیا دوپٹے پائنچے تھے تمہاری شاعری کے مشغلے اور تمہارے مسئلے ...

مزید پڑھیے

پس دیوار شب

نیم شب میں عیش بستر چھوڑ کر کون میرے پیچھے پیچھے آئے گا اور دیکھے گا کہ میں ایک غیر آباد مسجد میں چند انجانے بزرگوں کی جماعت میں تہجد پڑھ رہا ہوں کون دیکھے گا رجال الغیب مجھ سے بات کرنے میں مگن ہیں چاند کو باہر فلک پر چھوڑ کر وقت کی اندھی گپھا میں دور تک اندر پہنچ آگ کے اور روشنی ...

مزید پڑھیے

ہائے شدت کی کمی

میں جہاں پیدا ہوا پرورش پایا بڑھا اور جس جا آج ہوں ان سبھی جگہوں کا موسم معتدل فیاض مخلص مہرباں جو تپانے یا جمانے کے عمل سے نابلد خاک کے ذروں کو بھوبھل بنتے میں نے آج تک دیکھا نہیں اور دریاؤں کو راہ برف میں تبدیل ہوتے بھی نہ دیکھا تجربے مٹی کے لوندے گول چکنے اور سپاٹ نوک ہے ان میں ...

مزید پڑھیے

پل

بڑی مدتوں میں مرے صحن کی میٹھی نیم ایک دم گونج اٹھی ہری پتیوں میں کہیں کوئی باجا بجا کوئی سر پگھل کر ہواؤں میں بہنے لگا بڑی مدتوں میں درخت آج پھر مجھ سے کچھ کہنے سننے لگا کوئی سر پگھل کر ہواؤں میں بہنے لگا میں تبدیل ہونے لگا لگا ریل کی سیٹی سن کر کوئی لومڑی چیختی ہو لگا ہارن سن کر ...

مزید پڑھیے

کھیتی

وقت کی کھیتی ہیں ہم وقت بوتا ہے اگاتا پالتا ہے اور بڑھنے کے مواقع بھی ہمیں دیتا ہے وقت سبز کو زریں بتانے کی اجازت مرحمت کرتا ہے اور ناچنے دیتا ہے باد شوخ کی موجوں کے ساتھ جھومنے دیتا ہے سورج کی کرن کی ہم دمی میں چاندنی پی کر ہمیں بدست پاتا ہے تو خوش ہوتا ہے وقت پھولنے پھلنے کی ...

مزید پڑھیے

جنگل: ایک ہشت پہلو تصویر

شہر کے آرے چلاتے بے سرے بد رنگ شور و غل سے دور پاک رنگوں کا صنم آباد پاک آوازوں کا اک گندھرو لوک شہر والوں میں ہے جنگل جس کا نام صبح جس کی ایک ارژنگ اور البم جس کی شام وہ لچکتی فصل کے پہلو میں کہنی مار کر کلکاریاں بھرتی ہوئی جھنجھنا اٹھتے ہیں موٹے چمچماتے تار ٹیپ پر جاتی ہے بل ...

مزید پڑھیے
صفحہ 836 سے 960