شاعری

ابو الہول

جہان ریگ کے خواب گراں سے آج تو جاگ ہزاروں قافلے آتے رہے گزرتے رہے کوئی جگا نہ سکا تجھ کو تجھ سے کون کہے وہ زیست موت ہے جس میں کوئی لگن ہو نہ لاگ تڑپ اٹھے ترے ہونٹوں پہ کاش اب کوئی راگ جو تیرے دیدۂ سنگیں سے درد بن کے بہے یہ تیری تیرہ شبی بجلیوں کے ناز سہے یوں ہی سلگتی رہے تیرے دل میں ...

مزید پڑھیے

بڑا شہر

کراچی کسی دیو قد کیکڑے کی طرح سمندر کے ساحل پہ پاؤں پسارے پڑا ہے نسیں اس کی فولاد و آہن بدن ریت سیمنٹ پتھر بسیں ٹیکسیاں کاریں رکشا رگوں میں لہو کی بجائے رواں جسم پر جا بجا داغ دلدل نما جہاں عنکبوت اپنے تاروں سے بنتے ہیں بنکوں کے جال کہ ان میں شمال اور مشرق سے آئے ہوئے اشتہا اور ...

مزید پڑھیے

تسلسل

بزم خواہش کے نو واردو تم نہیں جانتے کیسے آہستہ آہستہ جسموں کے اندر رگوں تک پہنچتے ہیں پت جھڑ کے ہاتھ کیسے سرما کی شام ڈھانپ لیتی ہے کہرے کی چادر میں منظر تمام کیسے گزری ہوئی زندگی دستکیں دیتی رہتی ہے دل پر مگر جب پکاریں تو رم خوردہ رویا کے مانند دوری کی سرحد کے اس پار آتی ...

مزید پڑھیے

ہم

1 بچھی ہوئی ہے بساط کب سے زمانہ شاطر ہے اور ہم اس بساط کے زشت و خوب خانوں میں دست نادیدہ کے اشاروں پہ چل رہے ہیں بچھی ہوئی ہے بساط ازل سے بچھی ہوئی ہے بساط جس کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا ہے بساط ایسا خلا ہے جو وسعت تصور سے ماورا ہے کرشمۂ کائنات کیا ہے بساط پر آتے جاتے مہروں کا سلسلہ ...

مزید پڑھیے

امکان

مرے لفظ میرے لہو کی لو مرے دل کی لے جسے نور نے کی تلاش ہے مرے اشک میرے وہ حرف ہیں جو مرے لبوں پہ نہ آ سکے میں اگر کہوں بھی تو کیا کہوں کہ ہنوز میری زباں میں ہے وہی نا کشودہ گرہ کہ تھی تو سنے تو ابر بھی نغمہ ہے تو سنے تو موج ہوا بھی راگ کی تان ہے تو سنے تو پات بھی پھول بھی کسی گپت گیت ...

مزید پڑھیے

راہرو

سبک پا ہوا کی طرح میں گزرتا رہا سبک پا ہوا کی کہیں کوئی منزل نہیں ہوا بیکراں وقت کی موج ازل سے ترستی رہی کہیں پل کو سستا سکے سو سکے مگر دور حد نظر اک دھندلکا تھا اب بھی دھندلکا ہے ساحل نہیں مجھے زندگی اک خلش بن کے ڈستی رہی کبھی ایسی منزل نہ آئی جہاں کوئی تازہ نفس ہو سکے ہر اک دھندلی ...

مزید پڑھیے

وقت کاتب ہے

وقت کاتب ہے تو مسطر چہرے جب سے تحریر شناسی مری تقدیر ہوئی وہ معانی پس الفاظ نظر آتے ہیں جن کو پہچان کے دل ڈرتا ہے اور ہر چہرے سے ایک ہی چہرہ ابھر آتا ہے جو مرا چہرہ ہے اور امروز کا آئینہ یہ کہتا ہے کہ دیکھ آدمی زادے تری عمر کی شام آ پہنچی سر پہ اب راکھ اتر آئی ہے برف کنپٹیوں ...

مزید پڑھیے

ہرجائی

شام لوٹ آئی گھنی تاریکی اب نہ آئے گی خبر راہی کی جاگی تاروں کی ہر اک راہ گزار دور اڑتا نظر آتا ہے غبار آپ کی باتیں ہیں کتنی پھیکی کس کی راہ تکتی ہو کون آنے لگا کیا تمہیں بھی کوئی بہکانے لگا ان کی آنکھیں ہیں کہ خوابوں کا فسوں ان کی باتیں ہیں کہ الفت کا جنوں آپ کو کاہے کا غم کھانے ...

مزید پڑھیے

تنہا

اک شاخ سے پتا ٹوٹ گرا اور تو نے ٹھنڈی آہ بھری اک شاخ پہ کھلتا شگوفہ تھا تو اس سے بھی بیزار سی تھی تو اپنے خیال کے کہرے میں لپٹی ہوئی گم سم بیٹھی تھی تو پاس تھی اور میں تنہا تھا میرے دل میں تیرا غم تھا تیرے دل میں جانے کس کا ہم دونوں پاس تھے اور اتنے انجان ہوا کا ہر جھونکا اک ساتھ ہی ...

مزید پڑھیے

دروغ گو راوی

دل دروغ گو راوی فاصلے بلا کے ہیں پیرہن کے پیرائے جسم کی پرستش میں جستجو محبت کی خود فریب خواہش میں دل دروغ گو راوی فاصلے بلا کے ہیں پیکر وفا کس نے جسم سے تراشا ہے زلف و عارض و لب میں پیرا کا تماشا ہے داغ دل کا سرمایہ کس نے کس کو اپنایا

مزید پڑھیے
صفحہ 34 سے 960