شاعری

صبح سے شام تک

ایک شوخی بھری دوشیزۂ بلور جمال جس کے ہونٹوں پہ ہے کلیوں کے تبسم کا نکھار سیمگوں رخ سے اٹھائے ہوئے شب رنگ نقاب تیز رفتار اڑاتی ہوئی کہرے کا غبار افق شرق سے اٹھلاتی ہوئی آتی ہے مست آنکھوں سے برستا ہے صبوحی کا خمار پھول سے جسم پہ ہے شبنمی زرتار لباس کروٹیں لیتا ہے دل میں اسے چھونے ...

مزید پڑھیے

ٹائپسٹ

دن ڈھلا جاتا ہے ڈھل جائے گا کھو جائے گا ریگ اٹی درز سے در آئی ہے اک زرد کرن دیکھ کر میز کو دیوار کو الماری کو فائلوں، کاغذوں، بکھری ہوئی تحریروں کو پھر اسی درز سے گھبرا کے نکل جائے گی اور باہر وہ بھلی دھوپ، سنہری کرنیں جو کبھی ابر کے آغوش میں چھپ جاتی ہیں کبھی پیڑوں کے خنک سایوں ...

مزید پڑھیے

سنبھالا

تنہائی شکستہ پر سمیٹے آکاش کی وسعتوں پہ حیراں حسرت سے خلا میں تک رہی ہے یادوں کے سلگتے ابر پارے افسردہ دھوئیں میں ڈھل چکے ہیں پہنائے خیال کے دھندلکے اب تیرہ و تار ہو گئے ہیں آنسو بھی نہیں کہ رو سکوں میں یہ موت ہے زندگی نہیں ہے اب آئے کوئی مجھے اٹھا کر اس اونچے پہاڑ سے پٹک دے ہر ...

مزید پڑھیے

تیرگی

یہ رات دن کی اداسی یہ بے حسی یہ تھکن حیات ہے کہ تہ برف نا دمیدہ چمن وہ سبزہ میری نظر سے مرے جہان سے دور مگر کہیں وہ چمن وہ حیات ہے تو سہی یہ دل میں ایک کسک سی مری زبان سے دور زباں سے دور سہی کوئی بات ہے تو سہی چمن کو برف کی تہ میں نمو کی خواہش ہے حیات کو تپش آرزو کی خواہش ہے

مزید پڑھیے

چاک

۱ وہ ازل سے اپنے عظیم چاک پہ ممکنات کے انکشاف میں محو ہے فلک و زمیں مہ و آفتاب و نجوم کہنہ کرشمے اس کے کمال کے ابھی اس کی جدت بے پناہ کو طرح نو کی تلاش ہے ابھی عرش و فرش کے ناشنیدہ شمائل اس کی نظر میں ہیں ابھی ماورائے خیال و فکر مسائل اس کی نظر میں ہیں کرۂ زمیں کو یہ فخر ہے کہ یہ خاک ...

مزید پڑھیے

آنسو

سنو، سنو، آنسوؤں کی آواز روح کو اپنے دکھتے ہاتھوں سے چھو رہی ہے خزاں زدہ خشک پتیاں ہیں جو سطح آب رواں پہ رک رک کے گر رہی ہیں وہ سطح آب آئینہ ہے جس میں گزشتہ لمحوں کے ملگجے نقش ابھر رہے ہیں ان آئینہ رنگ آنسوؤں میں ہر آرزو ہر خیال ہر یاد ایک تصویر بے کسی ہے شفق کے بجھتے الاؤ میں راکھ ...

مزید پڑھیے

شہر آشوب

وہی صدا جو مرے خوں میں سرسراتی تھی وہ سایہ سایہ ہے اب ہر کسی کی آنکھوں میں یہ سرسراہٹیں سانپوں کی سیٹیوں کی طرح سیاہیوں کے سمندر کی تہ سے موج بہ موج ہماری بکھری صفوں کی طرف لپکتی ہیں بدن ہیں برف، رگیں رہ گزار ریگ رواں کئی تو سہم کے چپ ہو گئے ہیں صورت سنگ جو بچ گئے ہیں وہ اک دوسرے کی ...

مزید پڑھیے

کہی ان کہی

لفظ تصویریں بناتے ترے ہونٹوں سے اٹھے تھے لیکن دیکھتے دیکھتے تحلیل ہوئے ان کی حدت مری رگ رگ میں رواں تھی سو رہی پھر ترے ہاتھوں کا لمس ایسے ملائم الفاظ تیری آنکھوں کی چمک روشن و مبہم الفاظ اور وہ لفظ جو لفظوں میں نہاں رہتے ہیں اور وہ لفظ کہ اظہار کے محتاج نہیں پھر بھی ہیں ان کے لیے ...

مزید پڑھیے

دوری

مری نظر میں ہے اب تک وہ شام وہ محفل وہ اک ہجوم طرب وہ نشاط نغمہ و نور شریر لڑکیاں رنگین تتلیاں بے تاب لبوں پہ گل کدۂ گفتگو کھلائے ہوئے وہ قہقہے وہ مسرت کی نقرئی جھنکار اور اس ہجوم میں تم جیسے گلستاں میں بہار میں اپنے گوشۂ کم تاب میں ہجوم سے دور اداس نظروں میں مدھم دیے جلائے ...

مزید پڑھیے

خود فریب

نہیں نہیں مجھے نور سحر قبول نہیں کوئی مجھے وہ مری تیرگی عطا کر دے کہ میں نے جس کے سہارے بنے تھے خواب پہ خواب ہزار رنگ مرے مو قلم میں تھے جن سے بنا بنا کے بت آرزو کی تصویریں سیاہ پردۂ شب پر بکھیر دیں میں نے رواں تھے میرے رگ و پے میں ان گنت نغمے وہ دکھ کے گیت جو لب آشنا نہیں اب تک میں ...

مزید پڑھیے
صفحہ 33 سے 960