صبح سے شام تک
ایک شوخی بھری دوشیزۂ بلور جمال جس کے ہونٹوں پہ ہے کلیوں کے تبسم کا نکھار سیمگوں رخ سے اٹھائے ہوئے شب رنگ نقاب تیز رفتار اڑاتی ہوئی کہرے کا غبار افق شرق سے اٹھلاتی ہوئی آتی ہے مست آنکھوں سے برستا ہے صبوحی کا خمار پھول سے جسم پہ ہے شبنمی زرتار لباس کروٹیں لیتا ہے دل میں اسے چھونے ...