یہ کیسے خوف ہمیں آج پھر ستانے لگے
یہ کیسے خوف ہمیں آج پھر ستانے لگے ہمارے پاس رہو تم کہ دل ٹھکانے لگے غبار شہر سے باہر تری رفاقت میں سکوت شام کے لمحے بڑے سہانے لگے کبھی جو لوٹ کے آئے کسی مسافت سے تو اپنے شہر کے منظر وہی پرانے لگے سزا کے خوف سے کیوں اس قدر لرزتا ہے کر ایسا جرم کہ رحمت بھی مسکرانے لگے یہ کائنات ...