گھر چھوڑ کے بھی گھر ہی کے آزار میں رہنا
گھر چھوڑ کے بھی گھر ہی کے آزار میں رہنا کھوئے ہوئے فکر در و دیوار میں رہنا کچھ اور بڑھا دیتا ہے معنی کا تأثر چپ رہ کے بھی پیرایۂ اظہار میں رہنا جو مصلحت وقت کو خاطر میں نہ لائے وہ حسن انا چاہئے فنکار میں رہنا
گھر چھوڑ کے بھی گھر ہی کے آزار میں رہنا کھوئے ہوئے فکر در و دیوار میں رہنا کچھ اور بڑھا دیتا ہے معنی کا تأثر چپ رہ کے بھی پیرایۂ اظہار میں رہنا جو مصلحت وقت کو خاطر میں نہ لائے وہ حسن انا چاہئے فنکار میں رہنا
مرا دل جلے تو جلا کرے وہی کر جو تیرا خیال ہے مرے دل کی بات نہیں نہیں ترے گھر کا یہ تو سوال ہے نہ تو تاب عرض سوال ہے نہ تو دم زدوں کی مجال ہے مری خاموشی ہے فغاں بہ لب یہی قال ہے یہی حال ہے ترے حسن کا یہ کمال کیا یہ مجال کیا یہ خیال کیا ہے کمال حسن نظر مرا نہ جمال ہے نہ خیال ہے مجھے ...
نازش حسن نظر ہیں ہم لوگ عظمت شام و سحر ہیں ہم لوگ حسن دو روزہ پہ نازاں کیوں ہو دائمی کحل بصر ہیں ہم لوگ کارواں راہ گزر اور رہبر اور پھر گرد سفر ہیں ہم لوگ ہر قدم حسن کے محشر لیکن حشر کی حد نظر ہیں ہم لوگ کیوں زمانہ نہیں واقف ہم سے ہیبت و خوف و خطر ہیں ہم لوگ وقت ہے تیز رواں ہم ...
شدت غم سے آہ کر بیٹھے عظمت غم تباہ کر بیٹھے چار ان سے نگاہ کر بیٹھے کتنا رنگیں گناہ کر بیٹھے ان کی جانب نگاہ کر بیٹھے ساری محفل گواہ کر بیٹھے ان کی دل جوئی ہر طرح سے کی غیر سے رسم و راہ کر بیٹھے درد دل تحفۂ محبت تھا درد دل سے نباہ کر بیٹھے گل سے عارض پہ شبنمی قطرے کیوں انہیں ...
یہ خیال شوق پرور دل کے بہلانے کو ہے کوئی بے رخ بے رخی سے باز آ جانے کو ہے یہ معمہ میکدے میں کون سلجھانے کو ہے بے خودی ہشیار کو اور ہوش دیوانے کو ہے راز در پردہ کا پردہ خود بخود اٹھ جائے گا بس فقط ان سے نظر دو چار ہو جانے کو ہے میکدے میں شیخ کا آنا شگن اچھا نہیں ہوش کی لے ساقیا ...
کیوں حسن تبسم کی تکمیل نہیں ہوتی ہر صورت گل ان کی تمثیل نہیں ہوتی کرنے کو اجالا تو کر دیتی ہے گر پڑ کر ہر برق سر منزل قندیل نہیں ہوتی گل بنتے ہوئے شاید دیکھا نہیں کلیوں کو کیا چیز جوانی میں تبدیل نہیں ہوتی ہوتا نہ اگر دامن یہ چاک جنوں میں بھی رسوائی نہیں ہوتی تذلیل نہیں ...
بجائے شبنم تازہ گلوں پہ خاک نہ ہو بہار آئے مگر کوئی سینہ چاک نہ ہو ہزار غم سے گزرنے کے بعد بھی اے دل فسانہ اپنی محبت کا دردناک نہ ہو بھرم کھلے نہ محبت کا اے دل وحشی جنوں ہو جوش میں لیکن گریباں چاک نہ ہو فضول ہے یہ تسلی تماشا ہمدردی مدد کا جذبہ اگر وجہ اشتراک نہ ہو ہماری راہ میں ...
رہ گیا کیا سماج مٹھی بھر لوگ کرتے ہیں راج مٹھی بھر لوٹ لے کوئی عزت و عصمت اور دے دے اناج مٹھی بھر سلطنت چار سمت پھیلی ہے اور سر پہ ہے تاج مٹھی بھر پھر پلٹ کے وہ دور آئے گا لوگ لیں گے خراج مٹھی بھر کل زمانہ ملائے گا آواز لوگ آئے ہیں آج مٹھی بھر فصل آئی ہے خوب کھیتوں میں نہیں گھر ...
پا کے طوفاں کا اشارا دریا توڑ دیتا ہے کنارا دریا کیسے ڈوبے گی بھنور میں کشتی کیسے دے گا نہ سہارا دریا سیل ہمت ہیں ہمارے بازو ڈوب جائے گا تمہارا دریا بند افکار نے باندھے لیکن چڑھ کے اترا نہ ہمارا دریا اہل ہمت نے ڈبویا سب کو ناخداؤں سے نہ ہارا دریا اے اسیر غم ساحل ادھر آ بیچ ...
اس طرح رخ پھیرتے ہو سنتے ہی بوسے کی بات شاہ معشوقاں کے آگے کیا ہے یہ ایتی بساط کیوں نہ دوڑے تب دوانا ہو کے مجنوں دشت کوں جب لکھی ہو عاشقاں کی شاخ آہو پہ برات جھلجھلاتی ہے مہیں جامے سیں تیرے تن کی جوت ماہ کا خرمن ہے اے خورشید رو تیرا یوگات سو گرہ تھی دل میں میرے خوشۂ انگور ...