محبت جاگ اٹھی رگ رگ میں ارمانوں کو نیند آئی
محبت جاگ اٹھی رگ رگ میں ارمانوں کو نیند آئی حقیقت نے نقاب الٹی تو افسانوں کو نیند آئی چھلکتی ہی رہی مے دور چلتا ہی رہا لیکن رکی گردش ان آنکھوں کی تو پیمانوں کو نیند آئی بچھے تھے پھول بھی ہر موڑ پر فصل بہاراں میں مگر آئی تو کانٹوں پر ہی دیوانوں کو نیند آئی سر محفل رہا اک رت جگے ...