شاعری

گلوں کو چھو کے شمیم دعا نہیں آئی

گلوں کو چھو کے شمیم دعا نہیں آئی کھلا ہوا تھا دریچہ صبا نہیں آئی ہوائے دشت ابھی تو جنوں کا موسم تھا کہاں تھے ہم تری آواز پا نہیں آئی ابھی صحیفۂ جاں پر رقم بھی کیا ہوگا ابھی تو یاد بھی بے ساختہ نہیں آئی ہم اتنی دور کہاں تھے کہ پھر پلٹ نہ سکیں سواد شہر سے کوئی صدا نہیں آئی سنا ہے ...

مزید پڑھیے

دیپ تھا یا تارا کیا جانے

دیپ تھا یا تارا کیا جانے دل میں کیوں ڈوبا کیا جانے گل پر کیا کچھ بیت گئی ہے البیلا جھونکا کیا جانے آس کی میلی چادر اوڑھے وہ بھی تھا مجھ سا کیا جانے ریت بھی اپنی رت بھی اپنی دل رسم دنیا کیا جانے انگلی تھام کے چلنے والا نگری کا رستا کیا جانے کتنے موڑ ابھی باقی ہیں تم جانو سایا ...

مزید پڑھیے

اچانک دل ربا موسم کا دل آزار ہو جانا

اچانک دل ربا موسم کا دل آزار ہو جانا دعا آساں نہیں رہنا سخن دشوار ہو جانا تمہیں دیکھیں نگاہیں اور تم کو ہی نہیں دیکھیں محبت کے سبھی رشتوں کا یوں نادار ہو جانا ابھی تو بے نیازی میں تخاطب کی سی خوشبو تھی ہمیں اچھا لگا تھا درد کا دل دار ہو جانا اگر سچ اتنا ظالم ہے تو ہم سے جھوٹ ہی ...

مزید پڑھیے

عالم ہی اور تھا جو شناسائیوں میں تھا

عالم ہی اور تھا جو شناسائیوں میں تھا جو دیپ تھا نگاہ کی پرچھائیوں میں تھا وہ بے پناہ خوف جو تنہائیوں میں تھا دل کی تمام انجمن آرائیوں میں تھا اک لمحۂ فسوں نے جلایا تھا جو دیا پھر عمر بھر خیال کی رعنائیوں میں تھا اک خواب گوں سی دھوپ تھی زخموں کی آنچ میں اک سائباں سا درد کی ...

مزید پڑھیے

ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے

ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے آئے تو سہی بر سر الزام ہی آئے حیران ہیں لب بستہ ہیں دلگیر ہیں غنچے خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے لمحات مسرت ہیں تصور سے گریزاں یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے تاروں سے سجا لیں گے رہ شہر تمنا مقدور نہیں صبح چلو شام ہی آئے کیا راہ بدلنے کا ...

مزید پڑھیے

ہر گام سنبھل سنبھل رہی تھی

ہر گام سنبھل سنبھل رہی تھی یادوں کے بھنور میں چل رہی تھی سانچے میں خبر کے ڈھل رہی تھی اک خواب کی لو سے جل رہی تھی شبنم سی لگی جو دیکھنے میں پتھر کی طرح پگھل رہی تھی روداد سفر کی پوچھتے ہو میں خواب میں جیسے چل رہی تھی کیفیت انتظار پیہم ہے آج وہی جو کل رہی تھی تھی حرف دعا سی یاد ...

مزید پڑھیے

آگے حریم غم سے کوئی راستہ نہ تھا

آگے حریم غم سے کوئی راستہ نہ تھا اچھا ہوا کہ ساتھ کسی کو لیا نہ تھا دامان چاک چاک گلوں کو بہانہ تھا دل کا جو رنگ تھا وہ نظر سے چھپا نہ تھا رنگ شفق کی دھوپ کھلی تھی قدم قدم مقتل میں صبح و شام کا منظر جدا نہ تھا کیا بوجھ تھا کہ جس کو اٹھائے ہوئے تھے لوگ مڑ کر کسی کی سمت کوئی دیکھتا ...

مزید پڑھیے

خود حجابوں سا خود جمال سا تھا

خود حجابوں سا خود جمال سا تھا دل کا عالم بھی بے مثال سا تھا عکس میرا بھی آئنوں میں نہیں وہ بھی کیفیت خیال سا تھا دشت میں سامنے تھا خیمۂ گل دوریوں میں عجب کمال سا تھا بے سبب تو نہیں تھا آنکھوں میں ایک موسم کہ لا زوال سا تھا خوف اندھیروں کا ڈر اجالوں سے سانحہ تھا تو حسب حال سا ...

مزید پڑھیے

یہی نہیں کہ زخم جاں کو چارہ جو ملا نہیں

یہی نہیں کہ زخم جاں کو چارہ جو ملا نہیں یہ حال تھا کہ دل کو اسم آرزو ملا نہیں ابھی تلک جو خواب تھے چراغ تھے گلاب تھے وہ رہ گزر کوئی نہ تھی کہ جس پہ تو ملا نہیں تمام عمر کی مسافتوں کے بعد ہی کھلا کبھی کبھی وہ پاس تھا جو چار سو ملا نہیں وہ جیسے اک خیال تھا جو زندگی پہ چھا ...

مزید پڑھیے

خامشی سے ہوئی فغاں سے ہوئی

خامشی سے ہوئی فغاں سے ہوئی ابتدا رنج کی کہاں سے ہوئی کوئی طائر ادھر نہیں آتا کیسی تقصیر اس مکاں سے ہوئی موسموں پر یقین کیوں چھوڑا بد گمانی تو سائباں سے ہوئی بے نہایت سمندروں کا سفر گفتگو صرف بادباں سے ہوئی یہ جو الجھی ہوئی کہانی ہے معتبر حرف رایگاں سے ہوئی دل کی آبادیوں کو ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4521 سے 4657