شاعری

ہم سے وہ جان سخن ربط نوا چاہتی ہے

ہم سے وہ جان سخن ربط نوا چاہتی ہے چاند ہے اور چراغوں سے ضیا چاہتی ہے اس کو رہتا ہے ہمیشہ مری وحشت کا خیال میرے گم گشتہ غزالوں کا پتا چاہتی ہے میں نے اتنا اسے چاہا ہے کہ وہ جان مراد خود کو زنجیر محبت سے رہا چاہتی ہے چاہتی ہے کہ کہیں مجھ کو بہا کر لے جائے تم سے بڑھ کر تو مجھے موج ...

مزید پڑھیے

عجیب نشہ ہے ہشیار رہنا چاہتا ہوں

عجیب نشہ ہے ہشیار رہنا چاہتا ہوں میں اس کے خواب میں بیدار رہنا چاہتا ہوں یہ موج تازہ مری تشنگی کا وہم سہی میں اس سراب میں سرشار رہنا چاہتا ہوں سیاہ چشم مری وحشتوں پہ طنز نہ کر میں قاتلوں سے خبردار رہنا چاہتا ہوں یہ درد ہی مرا چارہ ہے تم کو کیا معلوم ہٹاؤ ہاتھ میں بیمار رہنا ...

مزید پڑھیے

ہم سے شاید ہی کبھی اس کی شناسائی ہو

ہم سے شاید ہی کبھی اس کی شناسائی ہو دل یہ چاہے ہے کہ شہرت ہو نہ رسوائی ہو وہ تھکن ہے کہ بدن ریت کی دیوار سا ہے دشمن جاں ہے وہ پچھوا ہو کہ پروائی ہو ہم وہاں کیا نگہ شوق کو شرمندہ کریں شہر کا شہر جہاں اس کا تماشائی ہو درد کیسا جو ڈبوئے نہ بہا لے جائے کیا ندی جس میں روانی ہو نہ ...

مزید پڑھیے

سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا

سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا سوچئے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا آج تک ہیں اسی کوچے میں نگاہیں آباد صورتیں اچھی چراغ اچھے دریچہ اچھا ایک چلو سے بھرے گھر کا بھلا کیا ہوگا ہم کو بھی نہر سے پیاسا پلٹ آنا اچھا پھول چہروں سے بھی پیارے تو نہیں ہیں جنگل شام ہو جائے تو بستی ہی کا رستہ ...

مزید پڑھیے

تو انہیں یاد آئے گی اے جوئبار اگلے برس

تو انہیں یاد آئے گی اے جوئبار اگلے برس اب تو لوٹے گی پرندوں کی قطار اگلے برس اور کچھ دن اس سے ملنے کے لیے جاتے رہو بستیاں بس جائیں گی دریا کے پار اگلے برس تم تو سچے ہو مگر دل کا بھروسہ کچھ نہیں بجھ نہ جائے یہ چراغ انتظار اگلے برس پہلے ہم پچھلی رتوں کے درد کا کر لیں حساب اس برس کے ...

مزید پڑھیے

اس سے بچھڑ کے باب ہنر بند کر دیا

اس سے بچھڑ کے باب ہنر بند کر دیا ہم جس میں جی رہے تھے وہ گھر بند کر دیا شاید خبر نہیں ہے غزالان شہر کو اب ہم نے جنگلوں کا سفر بند کر دیا اپنے لہو کے شور سے تنگ آ چکا ہوں میں کس نے اسے بدن میں نظر بند کر دیا اب ڈھونڈ اور قدر شناسان رنگ و بو ہم نے یہ کام اے گل تر بند کر دیا اک اسم جاں ...

مزید پڑھیے

مجھے بچا بھی لیا چھوڑ کر چلا بھی گیا

مجھے بچا بھی لیا چھوڑ کر چلا بھی گیا وہ مہرباں پس گرد سفر چلا بھی گیا وگرنہ تنگ نہ تھی عشق پر خدا کی زمیں کہا تھا اس نے تو میں اپنے گھر چلا بھی گیا کوئی یقیں نہ کرے میں اگر کسی کو بتاؤں وہ انگلیاں تھیں کہ زخم جگر چلا بھی گیا مرے بدن سے پھر آئی گئے دنوں کی مہک اگرچہ موسم برگ و ثمر ...

مزید پڑھیے

کاش میں بھی کبھی یاروں کا کہا مان سکوں

کاش میں بھی کبھی یاروں کا کہا مان سکوں آنکھ کے جسم پہ خوابوں کی ردا تان سکوں میں سمندر ہوں نہ تو میرا شناور پیارے تو بیاباں ہے نہ میں خاک تری چھان سکوں روئے دلبر بھی وہی چہرۂ قاتل بھی وہی تو کبھی آنکھ ملائے تو میں پہچان سکوں وقت یہ اور ہے مجھ میں یہ کہاں تاب کہ میں یاریاں جھیل ...

مزید پڑھیے

وحشت کے ساتھ دشت مری جان چاہیئے

وحشت کے ساتھ دشت مری جان چاہیئے اس عیش کے لیے سر و سامان چاہیئے کچھ عشق کے نصاب میں کمزور ہم بھی ہیں کچھ پرچۂ سوال بھی آسان چاہیئے تجھ کو سپردگی میں سمٹنا بھی ہے ضرور سچا ہے کاروبار تو نقصان چاہیئے اب تک کس انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں لوگ امید کے لیے کوئی امکان چاہیئے ہوگا یہاں ...

مزید پڑھیے

سخن میں رنگ تمہارے خیال ہی کے تو ہیں

سخن میں رنگ تمہارے خیال ہی کے تو ہیں یہ سب کرشمے ہوائے وصال ہی کے تو ہیں کہا تھا تم نے کہ لاتا ہے کون عشق کی تاب سو ہم جواب تمہارے سوال ہی کے تو ہیں ذرا سی بات ہے دل میں اگر بیاں ہو جائے تمام مسئلے اظہار حال ہی کے تو ہیں یہاں بھی اس کے سوا اور کیا نصیب ہمیں ختن میں رہ کے بھی چشم ...

مزید پڑھیے
صفحہ 2917 سے 4657