پی رہا ہے زندگی کی دھوپ کتنے پیار سے
پی رہا ہے زندگی کی دھوپ کتنے پیار سے
دور جو بیٹھا ہوا ہے سایۂ دیوار سے
گوشۂ دل کی خموشی گھر میں بھی ملتی نہیں
گھر کے ہنگامے بھی کم ہوتے نہیں بازار سے
زندگی کے ہر قدم میں وقت کی رفتار ہے
زندگی کو ناپنا کیا وقت کی رفتار سے
منزل شہر وفا شاید بہت نزدیک ہے
اب نظر آنے لگے ہیں راستے دشوار سے
سوچتے کیا ہو مرے گھر میں دیا کوئی نہیں
روشنی تو آ رہی ہے رخنۂ دیوار سے
پیچ و خم وہ ہیں اکھڑ جاتی ہیں سانسیں بھی جہاں
طے نہ کر راہ تمنا ایک ہی رفتار سے
دیکھنا جو چاہتے ہو زندگی کا بانکپن
آؤ وہ منظر دکھائیں ہم فراز دار سے
کس قدر خوددار تھے وہ پاؤں کے چھالے نہ پوچھ
کوئی سرگوشی نہ کی زنجیر کی جھنکار سے