پی کر شراب مست نہ ہو ہوشیار ہو
پی کر شراب مست نہ ہو ہوشیار ہو
پینے کا جب مزا ہے نشے پر سوار ہو
ساغر چھلک رہا ہو ہر اک راگنی کے ساتھ
پہلو میں تو ہو اور چمن میں بہار ہو
وہ آئیں گر تو دیکھ نہ پائے کوئی انہیں
ایسے کسی مقام پہ میرا مزار ہو
واعظ نصیحتوں کا سماں اب گزر گیا
وہ چاہیے بشر جو مرا غم گسار ہو
جس کو چھپا چھپا کے رکھا اپنی جاں کے ساتھ
وہ راز اے خدا نہ کبھی آشکار ہو
ایسی نشیلی آنکھیں بھی دیکھی ہیں اے کرنؔ
میں پی رہا ہوں آنکھوں میں اس کی خمار ہو