نہ پوچھو یہ مجھ سے کہ کیا دیکھتا ہوں

نہ پوچھو یہ مجھ سے کہ کیا دیکھتا ہوں
میں ہر شے میں شان خدا دیکھتا ہوں


ہیں دنیا میں یوں تو ہزاروں مناظر
میں منظر ہی کوئی نیا دیکھتا ہوں


گریباں میں منہ ڈال کر جب بھی دیکھا
خطا میں تو اپنی سدا دیکھتا ہوں


مصیبت کوئی ہند پر آ رہی ہے
میں مشرق میں کالی گھٹا دیکھتا ہوں


نمک پاشیاں ان کی رہتی ہیں جاری
میں زخموں کو اپنے ہرا دیکھتا ہوں


ادھر برق نے آشیانہ جلایا
ادھر میں کھڑا دل جلا دیکھتا ہوں


وہ آئے ہیں گھر میں مرے یا الٰہی
میں اجڑا ہوا گھر بسا دیکھتا ہوں


نظر میں میرے ہیچ ہے ساری دنیا
ترا آسرا اے خدا دیکھتا ہوں


بھویں تن گئے میری سنتے ہی باتیں
ہلالوں کو لڑتا ہوا دیکھتا ہوں


کرنؔ ہو نہ ہو آج اس گل سے ملنا
میں مر کر ہی اک گل کھلا دیکھتا ہوں