پھونک دو میرے آشیانے کو
پھونک دو میرے آشیانے کو
روشنی تو ملے زمانے کو
ہم تو بھٹکے قدم قدم لیکن
راستہ دے دیا زمانے کو
لوگ کیوں ایک دوسرے سے ملیں
سن رہے ہیں مرے فسانے کو
اتنے ٹھہراؤ سے نہ دیکھ مجھے
رخ بدلنا پڑے زمانے کو
مصلحت ساز رو بھی لیتے ہیں
وقت کے ساتھ مسکرانے کو
اپنی تصویر سامنے رکھ کر
دیکھتا ہوں ترے زمانے کو
لوگ سب کی خوشی سمجھتے ہیں
چند کلیوں کے مسکرانے کو
ہر طرف ہے اب ایک سناٹا
اور آواز دو زمانے کو
خود نہ تاریخ وقت بن انجمؔ
اپنی تاریخ دے زمانے کو