پھر تیری یاد دلاتے ہیں مجھے
پھر تیری یاد دلاتے ہیں مجھے
لوگ دانستہ ستاتے ہیں مجھے
زلف بردوش نشیلی آنکھیں
اے وہ لوٹے لیے جاتے ہیں مجھے
میں نے یہ خواب نہ دیکھا ہو کہیں
وہ محبت سے بلاتے ہیں مجھے
ان کے اشکوں میں بھی اب تو نشترؔ
دل کے ٹکڑے نظر آتے ہیں مجھے