پھر جلا کوئی آشیاں صاحب

پھر جلا کوئی آشیاں صاحب
پھر فضا ہے دھواں دھواں صاحب


ہے ضمیر ایک آئنے کی طرح
دیکھیے اپنی خامیاں صاحب


آپ کا ساتھ کیا ہوا ہے نصیب
میرا رستہ ہے کہکشاں صاحب


صرف آنکھوں سے بات ہوتی ہے
عشق رکھتا نہیں زباں صاحب


جب برائی کو اس نے بویا ہے
کیسے کاٹے وہ نیکیاں صاحب


پیڑ اب چھاؤں دے نہیں سکتا
توڑ ڈالی ہیں ڈالیاں صاحب


کیا حقیقت ہے سامنے آئے
لیں قمرؔ کا بھی امتحاں صاحب