پھیر کر تیغ نظر تیغ جفا سے پہلے
پھیر کر تیغ نظر تیغ جفا سے پہلے
مار ڈالا مجھے ظالم نے قضا سے پہلے
اب مرا خون جگر ہاتھوں میں ملتے ہیں وہ
اس سے نفرت تھی جنہیں رنگ حنا سے پہلے
زلف میں چھونے نہ پایا کہ بندھے میرے ہاتھ
دی ستم گر نے سزا مجھ کو خطا سے پہلے
شوق دیدار کی تیزی سے میں اکثر ہر صبح
کوچۂ یار میں جاتا ہوں صبا سے پہلے
ایسی تاثیر پہ سو جان سے صدمے قرباں
میرے گھر آ گئے وہ میری دعا سے پہلے
پاس صابرؔ کا بتو آج نہ کرنا پڑتا
دور رہتے اگر اس مرد خدا سے پہلے