پلکوں کے تلے جھیل چھپائے ہوئے ہوں میں
پلکوں کے تلے جھیل چھپائے ہوئے ہوں میں
ہاں درد کے دریا میں نہائے ہوئے ہوں میں
آندھی کا اجالوں سے ادھر راگ چھڑا ہے
اور خواہشوں کے دیپ جلائے ہوئے ہوں میں
حیران ہوں یہ آئینے میں کون ہے مجھ سا
مدت ہوئی ہے خود کو بھلائے ہوئے ہوں میں
یہ خواب کی فصلیں یہ خیالوں کے بغیچے
موسم کی نگاہوں سے بچائے ہوئے ہوں میں
طوفان تو دفنا لیا ہے اپنے لبوں میں
پر کچھ ہنسی کے پھول سجائے ہوئے ہوں میں